Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

سیاست کا طاقتوروں پر تکیہ

Published

on

سیاست دانوں کے بیانات  سے یہ عام تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جیسے ملکی سیاست کا انحصار اہم سرکاری عہدے داروں کے تقرر اور ان کی ریٹائرمنٹ پرہوتا ہے،ان عہدے داروں کا تقرر اور سبکدوشی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کیلئے اہم ہوتی ہے۔

حالیہ دنوں میں اوپر تلے مسلم لیگ نون کے دو اہم  رہنماؤں کے بیانات کچھ اسی طرز کے تھے جیسے پاکستان کی بڑی شخصیت کی ریٹائرمنٹ سے ایک سیاسی جماعت کی سیاست متاثر ہوگی اور دوسرے کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا۔

مسلم لیگ نون کے رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شو میں ایک بڑی  عدالتی شخصیت کی پانچ ماہ بعد ریٹائرمنٹ سے موجودہ صورت حال کی بہتری کی پیش گوئی کی۔وزیر دفاع نے  نام لیے بغیر  چیف جسٹس پاکستان کی ریٹائرمنٹ کی طرف اشارہ کیا جو اس سال ستمبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔

اس سے پہلے مریم نواز  تواتر کیساتھ برملا طور پر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا نام لیتی رہیں ہیں اور اسے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سیاست سے جوڑتی ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کے بیانات دیئے جاتے ہیں. ایسے بیانات کی ایک وجہ یہ ہے کہ اداروں کو مضبوط نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے عہدے پر تقرر پر انحصار کیا جانے لگا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی عسکری عہدے یا پھر عدلیہ کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا ہو۔ایسی سوچ 1990 ء میں پروان چڑھنا شروع ہوئی۔ اس وقت طاقت کا محور صدر مملکت اور اس کے ساتھ پاکستانی فوج کے سپہ سالار تھے۔ یہ وہی دور تھا جب صدر مملکت، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی کسی معاملے پر بیٹھک کو ” ٹرائیکا” لکھا اور کہا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ ختم ہو گیا۔

یہ سب اُس وقت ختم ہوا جب 13 ویں ترمیم کے ذریعے صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے آئینی اختیار کو ختم کیا گیا۔ اس کے بعد صدر مملکت سردار فاروق لغاری کو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ،جسٹس سجاد علی شاہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا کیونکہ آرمی چیف وزیر اعظم کیساتھ کھڑے ہوگئے لیکن کچھ عرصہ بعد آرمی چیف جنرل جہانگیر  کرامت بھی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کے بارے میں ایک بیان پر عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ اس طرح طاقت کا محور تبدیل ہو کر وزیر اعظم  منتقل ہو گیا ، طاقت کے محور کی یہ تبدیلی بھی یرپا ثابت نہ ہوئی۔

وکلا تحریک کے بعد عدلیہ بھی ایک مضبوط ستون کے طور پر سامنے آئی اور عسکری ادارے کے بعد  عدلیہ بھی نظام میں ایک پاور پلیئر کے روپ میں نمودار ہوئی ۔

سابق چیف جسٹس پاکستان، افتخار محمد چودھری کی عدالتی فعالیت کی وجہ ہر ایک کو چیف جسٹس پاکستان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار رہنے لگا۔ اس بار نئی بحث شروع ہوئی کہ آئندہ چیف جسٹس پاکستان کیسے  ہوں گے؟ اس طرح کی مباحث پہلے آرمی چیف  کی حد تک ہوتی تھیں۔

جسٹس ثاقب نثار کے چیف جسٹس پاکستان بننے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک مہم چلی جس میں کھلے عام یہ کہا گیا کہ جسٹس ثاقب نثار نواز شریف کے اپنے آدمی ہیں لیکن آج سب سے زیادہ مسلم لیگ نون  ہی انہیں ہدف تنقید بنا رہی ہے۔ اب پھر چیف جسٹس پاکستان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

قیام پاکستان کے سات برس بعد اسمبلی کی تحلیل پر مولوی تمیز الدین کی درخواست پر ایک فیصلہ آیا. اس فیصلے  نےجہاں گورنر جنرل کے قانون ساز اسمبلی کی تحلیل کے اقدام کو درست قرار دیا وہیں “نظریہ ضرورت” کے اس فیصلے نے ملکی سیاست کا دھارا موڑ دیا۔ اس فیصلے کے ٹھیک چار برس بعد جنرل ایوب خان نے حکومت اور دو سال پہلے بنے آئین دونوں کو چلتا کیا۔

فیڈریشن بنام مولوی تمیز الدین کا فیصلہ عوامی نمائندوں کی حیثیت کو کمزور کر گیا۔ ملک میں ایک کے بعد دوسرے، تیسرے اور پھر چوتھے مارشل لا سے صورت حال تبدیل ہوتی چلی گئی تو سیاست دانوں نے بھی طاقت کے نئے مرکز کی طرف رخ کیا۔ کوئی ایسا بڑا سیاست دان نہیں رہا جو کو کسی فوجی حکمران کی چھتر چھایا میں نہ رہا ہو۔ فرق رہا تو اتنا کہ کسی کی ایک فوجی حکمران کیخلاف  تو کسی کی دوسرے کیخلاف مزاحمت رہی۔ اس سے نہ تو جمہوریت پنپ سکی اور  نہ ہی آئینی ادارے بھی مضبوط  ہوسکے. اسی طرح سیاسی جماعتوں نے اپنے حق میں عدالتی فیصلوں کو کبھی سراہا تو کبھی اپنے خلاف فیصلوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ  باے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

سیاسی جماعتیں کسی عسکری ادارے اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے تقرر اور ریٹائرمنٹ پر بیان دیکر اپنے حق میں رائے عامہ تو بنانے میں کامیاب تو ہو جاتی ہیں لیکن اس سے مجموعی طور پر ادارے  اور سیاسی جماعتیں دونوں ہی کمزور ہوتے ہیں. سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ایسے بیانات دینے اجتناب کی ضرورت ہے.  اس سے ان کی سیاسی جماعت کے کمزور ہونے کا تاثر ابھرتا  ہےاور ٹیکنالوجی کے اس دور میں یہ بیانات کسی وقت بھی  ان  اپنے کیخلاف استعمال ہوسکتے ہیں

اسی لیے کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا تیر اور منہ نکلی بات کبھی واپس نہیں ہوتی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین