ٹاپ سٹوریز

’ صاحب! خیریت نہیں ہے، صدر نے اسمبلیاں توڑ دیں‘

Published

on

ایئرپورٹ پر قوم کے سابق منتخب نمائندوں کی قطار لگی تھی، وہ اپنے سابق وزیراعظم کو الوداع کہنے آئے تھے،یہ لوگ جو دو روز پہلے تک وی آئی پی لاؤنج کے ذریعہ جہاز تک جاتے یا جہاز سے اتر کرآتے تھے۔ آج اسی وی آئی پی لاؤنج کے دروازے ان کے لیے بند تھے کہ دربانوں کے نزدیک وی آئی پی لاؤنج میں اتنے افراد کے لیے جگہ نہیں تھی۔

یہ منظر نگاری اسلام آباد کے نامور صحافی اظہر سہیل نے اپنی کتاب، سندھڑی سے اوجڑی کیمپ، میں کی ہے، اور منظر ہے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی اقتدار کے بعد شہر اقتدار سے رخصتی کا۔ محمد خان جونیجو کی حکومت کو29 مئی 1988 اس وقت کے فوجی صدر ضیا الحق نے اوجڑی کیمپ سانحہ پر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل اور ان کے پیشرو اور حاضر سروس جنرل اختر عبدالرحمن کے خلاف تادیبی کارروائی کے ارادوں پر جونیجو کی حکومت کو چلتا کیا تھا، اس کے ساتھ افغان جہاد کے خاتمہ کے بعد روسی افواج کی واپسی اور افغانستان کے نئے بندوبست کے لیے جنیوا معاہدے پر دستخط بھی جونیجو حکومت کی رخصتی کا ایک سبب تھا۔

اظہر سہیل لکھتے ہیں کہ محمد خان جونیجو کی گاڑی آ کر رکی تو اقبال احمد خان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، اقبال احمد خان آج کچھ اور بوڑھے محسوس ہو رہے تھے، ان کے کندھے لٹکے ہوئے اور آنکھیں اشکبار تھیں، جونیجو نے انہیں گلے لگایا ، تھپکی دی اور قطار میں کھڑے ہوئے دوسرے افراد سے مصافحہ و معانقہ شروع کر دیا، جب وہ خواتین کے نزدیک پہنچے تو منظر اور دیدنی ہو گیا، خواتین کی اکثریت ان سے ملتے ہوئے رونے لگی اور جونیجو ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے تسلی دیتے، آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہ منظر بھی عجیب تھا، جمہوری حکومتیں اس سے پہلے بھی ختم ہوئیں، مگر پاکستان کے کسی سابق وزیراعظم کو اس شان سے رخصت ہوتے چشم فلک آج پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ جونیجو خاموش متین انداز میں اپنے ساتھیوں سے ْ اچھا سائیں پھر ملیں گے ٗ کہتے رخصت ہو رہے تھے۔ شایر ہی کوئی آنکھ ہو جو بھر نہ آئی ہو، وہ لوگ جو کل تک جونیجو کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے، آج وہ بھی اشکبار تھے، شاید یہ دکھ صرف جونیجو کا نہیں ، خود ان کا اپنا بھی تھا، سازشیں کرنے والے اپنی تلوار کے ساتھ خود بھی قتل ہو چکے تھے اور اب جو لوگ جونیجو کو رخصت کرنے آئے تھے، ان میں ایسے تھے جو اپنے اندر مر مر کر جی رہے تھے۔

ان سب سے ہاتھ ملا کر محمد خان جونیجو وی آئی پی لاؤنج میں داخل ہو گئے، بطور وزیراعظم وہ یہ لاؤنج استعمال نہیں کرتے تھے، ان کے لیے تو وی وی آئی پی لاؤنج ہوا کرتا تھا۔ جونیجو کے ساتھ بعض سابق وزرا اور ارکان اسمبلی نے بھی اندر جانا چاہا، مگھر دربانوں کی پتھریلی آنکھیں اور تنے ہوئے بازو حائل ہو گئے، میاں یاسین وٹو جو کل تک وزیر خزانہ تھے، آج انہیں بھی اندر نہیں جانے دیا جا رہا تھا، البتہ پہلے ریلے میں ان کا پی اے اندر چلا گیا تھا۔ یاسین وٹو دربانوں سے التجا کر رہے تھے ْ ارے بھائی! مجھے اندر جانے دو مجھے تو روک رہے ہو، مگر میرا پی اے اندر جا چکا ہےٗ۔

ْ جناب !اس کے پاس مستقل ایئرپورٹ سکیورٹی کارڈ ہے کیونکہ وہ سرکاری ملازم ہے، آپ کا کارڈ پرسوں سے ختم ہو چکا ہے، سوری، آپ اندر نہیں جا سکتےٌ۔

ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے جہاندیدہ دربان کا جواب سن کر یاسین وٹو خاموش ہو گئے۔ اندر ایپرن پر جونیجو جہاز کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، آذخری سیڑھی سے انہوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا، ہاتھ ہلایا اور جلدی سے منہ پھیر کر جہاز میں داخل ہو گئے۔

جونیجو حکومت کو دراصل اوجڑی کیمپ کی آگ نگل گئی تھی۔

اوجڑی کیمپ کی آگ

دس اپریل 1988 کا دن راولپنڈی اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں بسنے والوں کے لیے تو روز قیامت بن گیا تھا،صبح کے ٹھیک پونے دس بجے دھویں اور غبار کا ایک بادل ، خوفناک دھماکے کے ساتھ آسمان کی طرف پھٹ پڑا تھا،دونوں شہروں کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں اس دھماکے کی گونج اور لرزش پورے شدومد کے ساتھ محسوس نہ کی گئی ہو۔ بڑے دھماکے کی آواز سنتے ہی لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، چند ہی لمحوں میں دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ دونوں شہروں کے عین قلب میں واقع اوجڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو سے میزائلوں کی باڑ اڑ اڑ کر دونوں شہروں کے گلی محلوں میں تباہی پھیلانے لگ گئی۔ ایک قیامت تھی جو چاروں طرف رقص کناں تھی، لوگ گھروں، گلیوں اور محلوں سے نکل کر افراتفری کے عالم میں ادھر ادھر بھاگنے لگے، ماؤں کو بچوں اور جوانوں کو اپنی عزت کا ہوش بھولا ہوا تھا، نصف گھنٹہ تک تو میزائل فضا پر ایسے چھائے رہے جیسے بدلتے موسموں میں مرغابیوں کی ڈاریں، دور دیس ہجرت کے لیے جھنڈ کی صورت میں اڑان بھرتی ہیں ۔

نصف گھنٹہ بعد اس اڑان میں کمی ہوئی مگر تباہی کا خاتمہ نہ ہو سکا، ریڈیو نے 12 بجے کی خبروں میں بتایا کہ شہر میں واقع اسلحہ کے ڈپو میں آگ لگنے سے کچھ اسلحہ پھٹا ہے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ مگر گھبرانے کی بات تو تھی، لوگوں کی اکثریت نے اپنی آنکھوں کے سامنے انسانوں کی ٹکڑیوں کو موت کے منہ میں جاتے یا اعضا سے محروم ہوتے دیکھا تھا اور یہ قیامت کوئی آدھ گھنٹہ کی بات نہیں تھی، کم و بیش ایک ہفتہ وقفے وقفے سے تباہی کے سلسلے جاری رہے۔

محمد خان جونیجو اس وقت سندھ کے دورے پر گئے ہوئے تھے، وہ فورا اسلام آباد پہنچے، صدر ضیاالحق کویت کے دورے پر تھے، انہوں نے اپنی مصروفیات ختم کرکے گھر کی راہ لی، مگر خاک اور خون کا یہ طوفان ان دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلے سے موجود اختلافات کی دراڑ کو ایک گہری خلیج میں تبدیل کر گیا۔

صدر ضیا الحق نے موقف اختیار کیا کہ قوموں کی زندگی میں اس نوعیت کے مواقع آتے رہتے ہیں۔ جو لوگ بڑے کام کرتے ہیں، ان سےغلطیاں بھی ہوتی ہیں، ہماری قوم گذشتہ دس برس سے ایک اسلامی جہاد کی طرفداری کر رہی ہے، اس کی سزا ہمیں ملنا ہی تھی۔

وزیراعظم محمد خان جونیجو نے مختلف رویہ اختیار کیا، انہوں نے کراچی سے آتے ہی کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ کی قیادت میں ایک تحقیقاتی ٹیم مقرر کر دی جسے سانحہ اوجڑی کیمپ کے بارے میں رپورٹ دینا تھی۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی وزیراعظم نے پانچ وزرا کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جسے رپورٹ کا جائزہ لے کر، اپنی سفارشات مرتب کر کے وزیراعظم کے سامنے پیش کرنا تھیں اور وزیراعظم ان سفارشات کو، حسب وعدہ قومی نمائندوں کے سامنے پیش کرنے والے تھے۔ تب تک اوجڑی کیمپ کے متعلق بہت سی گفتنی و نا گفتنی باتیں بھی عوام کے سامنے آ چکی تھیں، تقریبا ہر شخص یہ جان چکا تھا کہ مذکورہ ڈپو انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کے اس شعبہ کی نگرانی میں چل رہا تھا جو جہاد افغانستان اور افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کے ایماء پر معاملات کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھا۔ بعض غیر ملکی اخبارات نے یہاں تک بھی لکھا کہ اصل میں یہ ڈپو افغانستان کے لیے ْ سپلائی ڈپوٌ کا کام دیتا تھا اور جنیوا سمجھوتہ کے بعد اس میں زیادہ سے زیادہ اسلحہ جمع کیا جا رہا تھا تاکہ افغانستان کے اندر مصروف پیکار مجاہدین کو کسی قسم کی کمی محسوس نہ ہو۔

اظہر سہیل کا کہنا ہے انہوں نے خود دیکھا کہ اس ڈپو میں اسلحہ کو اس انداز نے بے احتیاطی سے سٹور کیا گیا تھا جیسے لکڑیوں کے ٹال پر فالتو لکڑی ادھر ادھر بکھری نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر اس ڈپو میں تین سٹور تھے، پہلے ایک میں آگ لگی، پھر دوسرے میں اور آخر کار تیسرا جو زیر زمین تھا، وہ بھی سلگ اٹھا۔

اوجڑی کیمپ کی آگ بجھانے میں دقت اس لیے آئی کہ وہاں ایسا مواد بھی موجود تھا جس میں سفید گندھک موجود تھی اور اس پر پانی گرانا مزید خطرناک تھا، ہواؤں کا چلنا بھی اس ذخیرہ کے لیے خطرناک تھا کہ ، بعض معلومات کے مطابق اس میں فاسفورس بم بھی موجود تھے۔امریکی ماہرین بھی مایوسی کے عالم میں جواب دے چکے تھے لیکن جنرل عمران اللہ اور ان کی ٹیم نے ٓگ پر ایک ہفتے میں قابو پا لیا جو بظاہر ناممکن تھا اور اس کے ساتھ ہی رپورٹ بھی بروقت مکمل کر لی۔

پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ

پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ وزیر داخلہ اسلم خٹک تھے، پانچ رکنی کمیٹی نے جنرل عمران اللہ کا انٹرویو بھی کیا، حتمی رپورٹ کی تیاری پر اختلاف ہوا، اسلم خٹک کسی صورت صدر ضیا کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے ارکان کے اختلاف کے باوجود خود سے رپورٹ کھی، جس میں کہا گیا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں پاکستانی حکومت کی جانب سے جو قربانیاں دی جا رہی ہیں اور جہاد افغانستان کو جاری و ساری رکھنے کے لیے جو کردار ادا کیا جا رہا ہے اس کے حوالے سے اس قسم کے حادثہ کو پاکستانی جوانوں کا سر صدقہ سمجھ کر درگزر کر دینا چاہئے کیونکہ زندہ قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہی رہتے ہیں۔ اسلم خٹک نے اس بحث میں الجھے بغیر کہ حادثہ کس کی غلطی سے اور کیوں ہواصرف اس قدر تجویز پیش کی تھی کہ شعبہ جاتی انکوائری میں جن چھوٹے چھوٹے دو چار افسروں کے خلاف تساہل یا سہو کا الزام نظر آیا ہے انہیں حسب دستور سزا دے کر معاملہ ختم کر دیا جائے کیونکہ اس میں کوئی اتنی اہم یا پریشانی کی بات نہیں ۔
تین رپورٹس

کمیٹی کے ارکان کی اختلافی رائے کو الگ سے ایک نوٹ کی صورت میں اسلم خٹک کی رپورٹ کے ساتھ وزیراعظم کو بھجوا دیا گیا۔کمیٹی میں شامل سب سے کم عمر رکن ، وزیر مملکت دفاع رانا نعیم محمود نے اس کمیٹی سے شدید اختلاف کیا اور ایک تیسری رپورٹ تیار کی، کچھ لوگ کہتے ہیں وزیراعظم نے یہ رپورٹ رانا نعیم محمود سے خود تیار کرائی۔

جنرل عمران اللہ جب کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو ان سے رانا نعیم محمود نے سوال کیا تھا کہ اس کیمپ کا قیام کس کی ذمہ داری تھی؟ جنرل عمران نے جواب دیا کہ یہ ذمہ داری آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل کی تھی، جو بعد میں ترقی پا کر جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین ہو گئے۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ جنرل اختر عبدالرحمن جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، کیا انہوں نے یہ فیصلہ تنہا کیا یا اس کے لیے کسی سے منظوری لی؟ ۔ جنرل عمران اللہ نے جواب دیا کہ اس قسم کا فیصلہ متعلقہ افسر خود ہی اپنی صوابدید کے مطابق کرنے کے بارے میں مکمل طور پر بااختیار ہے اور اسے کسی بھی دوسرے افسر سے صلاح مشورے یا منظوری کی ضرورت نہیں ۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ پرانے ڈی جی کی تبدیلی کے بعد آنے والا نیا افسر کیا اس کیمپ کو تبدیل کر سکتا تھا؟ ۔ جنرل عمران نے جواب دیا ہاں، میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ڈی جی آئی ایس آئی ، اس بارے میں مکمل بااختیار ہوتا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔

اس گفتگو کو بنیاد بنا کر رانا نعیم محمود نے نتیجہ نکالا تھا کہ اس کیمپ کا قیام اور اس کا انتظام مکمل طور پر آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی ذمہ داری تھا اور ہے۔ اس لیے سفارش کی جاتی ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل یعنی جنرل اختر عبدالرحمن اور موجودہ ڈائریکٹر جنرل یعنی جنرل حمید گل ، دونوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس رپورٹ پر کمیٹی کے سربراہ اسلم خٹک کے سوا باقی تمام ارکان، رانا نعیم محمود، قاضی عابد اور ابراہیم بلوچ نے دستخط کئے۔

وزیراعظم جونیجو نے حسب وعدہ رپورٹ قوم کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کرنے اور صدر سے اس رپورٹ پر کارروائی کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے خلاف کارروائی صدر ضیا کا اختیار تھا جبکہ جنرل حمید گل کے خلاف کارروائی وزیر اعظم کا اختیار تھا اور وہ یہ کارروائی کرنے کو تیار تھے۔

جونیجو نے کوریا اور دیگر ملکوں کا دورہ کرنا تھا اور وہی دورے سے واپسی پر کارروائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ جونیجو دورے پر روانگی سے پہلے یہ رپورٹس خود صدر ضیا کے پاس لے گئے اور تینوں رپورٹس ان کے سامنے رکھ دیں۔ صدر نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو جونیجو نے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا ’ سائیں ! یہ کمیٹی کی رپورٹس ہیں، آپ ان پر غور کر لیجئے، میں کوئی فیصلہ اپنی وطن واپسی کے بعد آپ کے مشورہ سے ہی کروں گا‘ ۔

صدر ضیا پھنس گئے

جونیجو تو تینوں رپورٹس صدر کو دے کر چلے گئے مگر صدر اگر ان رپورٹس پر عمل کرتے تو معاملات ان کے لیے خراب ہو سکتے تھے۔ اختر عبدالرحمن کے خلاف کارروائی کا مطلب تھا ان کا اپنا دارہ ان کے خلاف ہوجاتا۔ اگر جونیجو ان رپورٹس کو حسب وعدہ مشتہر کر دیتے تو ان افسروں کے مستقبل پر اثر پڑتا۔ صدر نے محسوس کیا کہ جونیجو ان کے لیے ایسا جال بن رہے ہیں جس سے رہائی مشکل ہوگی۔

وزیراعظم جونیجو کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کسی بھی معاملے پر فیصلے میں اس قدر تاخیر کرتے تھے کہ ان کے رفقا بھی اس بات سے تنگ تھے۔ جونیجو کے سامنے جب بھی کوئی فوری فیصلہ کرنے کی گھڑی آئی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا ’ اچھا سائیں ! ابھی اسے رکھیں، پھر دیکھیں گے‘ ۔ اوجڑی کیمپ رپورٹ کے بارے میں بھی انہوں نے یہی رویہ اپنایا اور رپورٹ کو جوں کا توں صدر کے حوالے کر کے ، خود غیرملکی دورے پر چلے گئے۔ جب وطن واپس آئے تو وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکاتھا۔

جونیجو کو اطلاع کیسے ملی؟

29 مئی کی شام سات بجے کے قریب شام کے ملگجے سائے گہرے ہو کر، ایک سیاہ رات میں تبدیل ہوتے جا رہے تھے۔ فضا میں پہلے سے موجود حبس اور بڑھتا جا رہا تھا۔ وزیراعظم جونیجو ، کوریا، چین، فلپائن اور ہانگ کانگ کے دورے سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ قبل واپس آئے تھے۔ ساڑھے چھ بجے ایوان وزیراعظم میں پہنچنے کے بعد منہ ہاتھ دھو کر، تازہ دم ہونے کے لیے چائے کا پیالہ سامنے رکھے، ایوان وزیراعظم کی سٹڈی میں بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے پر تردد کی لکیریں پھیلتی جا رہی تھیں۔ وہ کسی گہری سوچ میں گم ، تصویر فکر بنے ہوئے تھے کہ ان کے اے ڈی سی نے انتہائی پریشانی کے عالم میں اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ محمد خان جونیجو نے اپنے روایتی منکسر اندا ز میں جواب دیا ’ آئیے، خیریت تو ہے؟‘ ۔

’ صاحب! خیریت نہیں ہے‘ اے ڈی سی نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔

’ کیوں کیا ہوا؟‘

’ صدر مملکت نے قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی ہیں، آپ کی حکومت برطرف کی جا چکی ہے‘

’ کیا کہہ رہے ہو؟‘

’ سر ! اب آپ وزیراعظم نہیں رہے‘

’ کس نے بتایا یہ سب کچھ؟ کیا مارشل لا لگا دیا ہے؟‘

’ سر یہ تو معلوم نہیں، ایک دوست نے فون کر کے مجھے بتایا ہے میں آپ کو بتا رہا ہوں، تفصیل ابھی معلوم نہیں ہو سکی‘

’ عیسانی کہاں ہیں؟ انہیں بلائیے، باقی سب لوگ خیریت سے تو ہیں‘

’ ہاں سر! باہر سب ٹھیک ہے، مارشل لا نہیں لگایا گیا، صرف صدارتی اختیارات کے تحت اسمبلی توڑ دی گئی ہے، سینیٹ ابھی باقی ہے‘

’ اچھا ٹھیک ہے سائیں، دیکھتے ہیں‘

تھوڑی دیر بعد وزیراعظم کے سیکرٹری مسٹر عیسانی آ گئے اور انہوں نے بھی اس خبر کی تصدیق کردی۔

اسمبلیاں کیوں برطرف کیں؟ صدر ضیا کا موقف

وزیراعظم جونیجو غیرملکی دورے سے واپسی کے بعد ایئرپورٹ پر پریس کانفرنس کر کے روانہ ہوئے تو صحافیوں کو صدر کی پریس کانفرنس کی کوریج کے لیے جانا تھا۔

آرمی ہاؤس کے ملاقاتیوں کے کمرے میں کرسیاں اس انداز سے لگائی گئی تھیں کہ یہ ایک چھوٹا موٹا آڈیٹوریم محسوس ہونے لگا تھا۔ اخبار نویس کرسیوں پر براجمان ہوگئے تو صدر ضیا پچھلے دروازے سے اندر داخل ہوئے، ان کی بغل میں فائل دبی ہوئی تھی، جو ان کے معمول کے برعکس تھا، عام طور پر فائل برداری کا کام ان کے اے ڈی سی حضرات کیا کرتے تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سلام کیا اور پھر کرسی پر بیٹھنے کے بعد پوچھنے لگے آج تو آپ نے کافی مصروف دن گزارا ہوگا، ایک اخبار نویس نے کہا ’ جناب! آج تو یوں کہئے کہ دوڑ لگی ہوئی ہے‘۔ صدر نے غور سے اخبار نویس کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ’ دوڑ تو آپ کی اب لگے گی، میں آپ کو ایک بہت بڑی خبر دینے والا ہوں‘۔

اس کے بعد انہوں نے چند ابتدائی کلمات کے بعد جس بات پر زور دیا وہ یہ تھا کہ ملک کے جمہوری نمائندے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، میں نے انہیں بہت ڈھیل دی، بہت موقع دیا، مگر یوں لگتا ہے جیسے معاملات کو چلانا ان کے بس کا روگ ہی نہیں، میں انہیں بار بار سمجھاتا رہا ہوں، مگر یا تو بات ان کے پلے نہیں پڑتی یا پھر یہ جان بوجھ کر معاملات کو درست کرنا نہیں چاہتے، اسلامی نظام کا نفاذ ان سے نہیں ہو سکا، امن و امان ان کے قابو میں نہیں، عام لوگ خود کو بے سائبان اور غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں، ان لوگوں کے اس رویہ سے مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچی اور میں نے انہیں سمجھایا بھی ، مگر نتیجہ عبث ہی رہا۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑ کر وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو بھی فارغ کردوں اور اس سلسلہ میں میرے فرمان کا متن یہ ہے۔

اس کے بعد صدر نے انگریزی فرمان کا متن پڑھا اور اسے اپنے چیف آف جنرل سٹاف رفاقت کے سپرد کردیا کہ وہ اس کی نقول تیار کرا کے انہیں اخبار نویسوں میں تقسیم کردیں۔

حکومت کی برطرفی پر جونیجو کے پانچ پیاروں کا ردعمل

وزیراعظم جونیجو کی کابینہ میں سب سے اہم پانچ ارکان تھے،میاں محمد یاسین وٹو، ڈاکٹر محبوب الحق، قاضی عابد اور نسیم آہیر۔ کابینہ تحلیل ہوتے ہی میاں یاسین خان وٹو، ڈاکٹر محبوب الحق اور قاضی عابد آرمی ہاؤس کی غلام گردشوں میں کھڑے صدر سے ملاقات کے وسیلے تلاش کر رہے تھے، عملے نے انہیں بتایا کہ صدر مصروف ہیں،لیکن ان تینوں نے لمحہ بھر کے سلام کی مہلت مانگی، آخرکار صدر پورچ میں ان لوگوں سے ملنے آئے۔ اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہوا کہ کسی ستم ظریف نے اگلی صبح ان وزرا کے گھروں پر فون کر کے انہیں ایوان صدر آکر ملاقات کی دعوت دے ڈالی۔ یہ لوگ بھاگم بھاگ ایوان صدر پہنچے مگر وہاں موجود عملے نے انہیں بتایا کہ ان لوگوں کی ملاقات کے لیے کوئی وقت طے نہیں کیا گیا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version