Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

سر مل گیا حسین کا بیعت نہیں ملی

Published

on

نواسہ، رسول ﷺ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جسکی مذمت ہر آئینہ ضروری ہے۔ اس واقعے کے زخم دل کو تیزی سے جلاتے ہوئے، آج بھی ان کی یاد تاریخ کے صفحے بے تاب نمایاں ہے۔   انسانیت کی بقا در حقیقت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور قربانی کے درخشنے سے روشن ہوئی ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے خاندان کے لوگوں سے بے معذرت واقف کر دیا کہ "میں ان لوگوں کا تسلط اور ظلمت برداشت نہیں کر وں گا”۔ یہ ایک آہستہ وعدہ تھا، جو بھاری قلوب کو دہرا رہا تھا۔ حق کی حمایت اور باطل سے ٹکرانے میں ہی ان کی عزت اور زندگی کا راز چھپا تھا۔ جبکہ باطل سے مرغوب ہونا اور اس کا ساتھ دینا موت کے مترادف ہے۔ اس سانحے کی تلخ اور افسوسناک یادوں کے ساتھ، ہمیں یہ حقیقت سمجھ آتی ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے دل نے بڑے شجاعت سے حق کی پیروی کی، جبکہ دنیا نے ان پر ظلم اور تشدد کا پرچم لہرایا۔

دنیا کے سب یزید اسی غم میں مر گئے

سر مل گیا حسین کا بیعت نہیں ملی

 ان کے بلا فکر اقدار نے ان کی بے بسی کی داستان، انسانیت کے دائرے میں گہرے اثرات سے بھر دیا۔میں نے جب سے شعور کی آنکھیں کھولی ہیں ہر سال محرم میں علماء حضرات سے واقعہ کربلا سنتا آرہا ہوں ۔ اموی خلیفہ کا انتخاب درست نہیں ہے جس پر کوفیوں نے خطوط لکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلایا  اور بعد میں بیوفائی کی  اور  امام حسین رضی اللہ عنہ مظلومیت کی حالت میں بمعہ اپنے رفقا ء کے شہید کر دیے گئے ۔ بعض علماء حضرات یذید کے اوصاف بیان کرتے ہیں کہ وہ تہجد گزار اور نیک انسان تھا نماز، روزہ ، زکوۃ اور حج کا پابند تھا ۔ مگر میں جب تاریخ کی ابتدائی کتب کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے واقعہ کربلا کچھ اور ہی سبق دیتا دکھائی دیتا ہے ۔ کیا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال نے صرف کوفیوں ہی کی دعوت کی وجہ سے کوفہ کا سفر کیا؟ کیا اہل حکومت نےپیغمبر اسلام ﷺ کے دین میں کوئی تبدیلی کی تھی؟ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہم دین کو صرف اوور صرف مذہب کی حد تک اختیار کرتے ہیں ۔ اگر کوئی نمازی ہے تو ہم اسکو رب کائنات کا بہت نیک اور متقی شخص جانتےہیں ۔ مگر عبادات دین کے کتنے فیصد حصے پر مشتمل ہیں؟ کسی شخص کا نیک اور متقی ہونا اور امور حکومت کو چلانا دو مختلف باتیں ہیں۔ امور حکومت کو چلانے کا حق دار وہی ہے جسے امور سیاست کا علم ہو۔ اسکے لیے متقی ہونا لازم نہیں ہے امام حسین رضی اللہ عنہ امور حکومت کے خلا ف کوفہ گئے تھے اصل شریعت تو خلافت اور انداز حکمرانی ہے ۔ کیونکہ حاکم اگر شرعی ہو گا تو ملک قرآن و سنت کے تابع چلے گا ۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو نظام خلافت دیا ۔ خلیفہ کا انتخاب وقت کے جید عالم فقیہ اور چوٹی کے صاحب الرائے لوگ کسی کے ہاتھ پر بیعت کر تے تھے اور یہ باہمی مشورے سے عمل وقوع پزیر ہوتا تھا ۔ خلافت میں خلیفہ کے دروازے عوام الناس کے لیے کھلے رہتے تھے ۔ ایک عام شہری مسجد نبوی ﷺ میں اسکا دامن پکڑ کر سوال کر سکتا تھا ۔ بیت المال سے خلیفہ ایک پائی بھی عوام کی اجازت کے بغیر نہیں لے سکتا تھا ۔ عام لوگوں کی حالت زندگی خلیفہ سے بہتر ہوتی تھی ۔ خلیفہ محلات نہیں بنایا کرتا تھا ۔ بیہقی اور ابن عساکر ابرہیم سے روایت کرتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ خلیفہ کون تھے؟ آپ نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۔ آپ نے فرمایا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر خلافت کا کوئی مستحق نہیں تھا ۔ جس دین کے ماننے والوں نے قیصر و کسری کی بادشاہت و ملوکیت کو ختم کیا صد افسوس اسی دین کے پیروکار بھی پہلی صدی میں ہی بادشاہت کے تخت پر بیٹھ گئے ۔ اگر آپ واقعہ کربلا کے حقیقی اسبا ب کو جاننا چاہتے ہیں تو حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت سے مطالعے کا آغاذ کریں تاریخی کتب نہیں بلکہ احادیث کی  کتب کو پڑھیں ۔ زیادہ نہیں تو صرف بخاری شریف  پڑھ لیں آپ پر عیاں ہو گا کہ کیوں امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت کی رہ پر چلے حالانکہ امام حسین رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ اور ان کے چند ساتھی یزید کی غاصب حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے خون سے اختلافی نوٹ لکھ کر شرفاء کے لیے عذر کے سارے دروازے بند کر دیے ۔

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا

تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا

یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے

کہ ہے ہزار قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے

زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے

مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن

کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے

یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری

آپ رضی اللہ عنہ نے یہ مثال قائم کر دی کہ  دین کو بچانے کے لیے رخصت کی بجائے راہ عزیمت ہر چلنا پڑتا ہے ۔ ظاہری اور فوری کامیابی کی بجائے دائمی و اخروی کامیابی ہی بہتر ہے ۔ اور آج واقعہ کربلا ان لوگوں کے لیے بڑا حوصلہ ہے جو یزیدی صفت حکمرانوں کے خلاف اپنی جدو جہد جاری رکھ کر سنت حسینی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔  اسی لیے محرم کے مہینے میں  واقعہ کربلا کو تازہ کیا گیا ۔ تا کہ لوگوں کے ذہن دنیاوی جاہ و حشمت  اور مال و دولت کی گرد میں اس واقعہ کو بھول ہی نہ جایئں  کیونکہ یزیدیت شیطان مردود کی سرپرستی میں ہر وقت مصروف عمل رہتی ہے ۔ اگر اسکے مقابلے  کے لیے حسینیت کو زندہ نہ رکھا جائے تو اسلام کا چہرہ گرد آلود ہو سکتا ہے ۔ انسان کا تعلق چاہے کسی بھی ملک اور فرقے سے ہو  یا وہ کوئی بھی نقطہ نظر رکھتا ہو کربلا  واحد نقطہ اشتراک ہے جہاں تمام مسلمان صدیوں سے متفق ہیں ۔ لیکن طاغوتی سازشوں نے عقائد پر حملہ کرکے مسلمانوں سے ان کی وحدت چھیننے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ ہماری قومی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ اپنے دشمن کو پہچانیں اور اپنے اتحاد کے ذریعے اس کی سازشوں کو ناکام بنا دیں

سجدے میں سر ، گلے پر خنجر اور تین دن کی پیاس

ایسی نماز پھر نہ ہوئی کربلا کے بعد

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین