ٹاپ سٹوریز

سمگلروں کے پاس تلواریں ہیں، زبردستی کشتی پر بٹھا رہے ہیں، لاپتہ پاکستانی شہری کا آخری فون رابطہ

Published

on

تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے بدترین حادثے میں تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 81 ہوگئی، پیر کے روز مزید تین لاشیں جنوبی یونان سے ملیں، بچ جانے والوں کے بیانات یونان کے سرکاری موقف کی مسلسل نفی کر رہے ہیں، بچ جانے والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے فشنگ ٹرالر کو ایک اور جہاز رسے کی مدد سے کھینچ رہا تھا جب وہ ڈوبا۔

بچ جانے والوں کے بیانات یونان کے کوسٹ گارڈز کے کردار پر سوال اٹھا رہے ہیں،کیونکہ کوسٹ گارڈز کہتے ہیں کہ جب تک تارکین وطن کے ٹرالر کا پتہ چلایا جاتا وہ ڈوب چکا تھا، اگر واقعی ایسا ہے تو اس ٹرالر کو سمندر میں ڈوبنے سے پہلے کون سا جہاز رسے کی مدد سے کھینچنے کی کوشش میں تھا؟ کوسٹ گارڈ کہتے ہیں کہ اس ٹرالر کو ڈوبنے کے بعد رسے کی مدد سے کھینچا گیا۔

ایک کرد شہری کو اس حادثے میں بچ نکلا، اس نے یونان کے سرکاری مرکز سے فون پر ترکی کے ایک ٹی وی سے بات کی اور اس ٹرالر میں سوار افراد اور حادثے کی تفصیلات بتائیں، علی شیخ شام کے شہر کوبانی کا رہنے والا ہے،وہ شام کے حالات سے تنگ ۤ  کر یورپ کے لیے نکلا تھا اور بعد میں اپنی بیوی اور بچوں کو بھی وہاں بلانے کا ارادہ رکھتا تھا۔

علی شیخ نے بتایا کہ فشنگ ٹرالر پر 750 افراد عورتوں اور بچوں سمیت سوار تھے، علی شیخ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ تھا، انہوں نے انسانی سمگلر کو 4000 ہزار ڈالر دئیے اور بعد میں انسانی سمگلر نے انہیں بلیک میل کر کے مزید پاپنچ، پانچ سو ڈالر لئے تھے۔

علی شیخ نے کہا کہ کشتی بڑی اور اچھی حالت میں تھی اس لیے ہم نے اعتراض نہ کیا،انہوں نے ہمیں کھانا، پانی یا کوئی بھی سامان کشتی پر لانے سے منع کیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ کشتی پر کھانا پانی سب موجود ہوگا،کسی کو لائف جیکٹ بھی ساتھ لانے کی اجازت نہیں دی گئی، اگر کوئی کھانے پینے کا سامان ساتھ لایا تھا تو اس سے چھین کر پھینک دیا گیا۔

علی شیخ نے بتایا کہ انہیں ٹرالر کے نچلے حصے کی جانب دھکیل دیا گیا تھا، بعد میں مزید رقم لے کر ٹرالر کے ڈیک پر جانے کی اجازت دی گئی، خواتین اور بچے سب نچلے حصے میں تھے اور جب ٹرالر ڈوبا تو ان کے نکلنے کا رستہ ہی موجود نہ تھا۔

علی شیخ نے بتایا کہ وہ سمندر میں پانچ دن گزار چکے تھے جب ٹرالر ڈوبا، پہلے دن ہی ٹرالر پر پینے کا پانی ختم ہو گیا تھا اور کچھ مسافروں نے سمندری پانی پیا تھا۔

علی شیخ نے بتایا کہ فشنگ ٹرالر کا انجن خراب ہو گیا تھا اور اسے ایک اور ٹرالر کی مدد سے کھینچنے کی کوشش کی جا رہی تھی،ٹرالر کھینچنے کی اس کوشش میں ڈوب گیا،اس ٹرالر کو کھینچنے والا جہاز کس کا تھا یہ ہمیں معلوم نہیں۔

علی شیخ کی طرح کئی اور بچ جانے والے تارکین وطن نے بھی یہ بات بتائی، علی شیخ نے بتایا کہ ٹرالر کو کھینچنے کی کوشش ہوئی تو وہ ایک جانب سے اوپر اٹھ گیا اور لوگ سمندر میں گرنے لگے، ہر طرف چیخ و پکار تھی، لوگ ایک دوسرے کو پکڑ کر گرنے کی کوشش میں تھے، اسی کوشش میں ایک شخص نے اسے پکڑا تو وہ بھی سمندر میں جا گرا۔ علی شیخ نے کہا کہ اس وقت اس نے سوچا اب کوئی بھی نہیں بچے گا۔

یونان کے کوسٹ گارڈز کا دعویٰ ہے کہ اس فشنگ ٹرالر کو کوئی بھی جہاز کھینچنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا بلکہ مسافر زیادہ ہونے اور افراتفری کی وجہ سے ٹرالر ایک جانب کو جھک کر ڈوب گیا۔

پیر کے روز یونان کی بحریہ کے ایک فریگیٹ اور چار جہازوں نے سمندر میں تلاش کا کام جاری رکھا اور مزید تین لاشیں تلاش کی گئیں، کشتی ڈوبنے کے بعد پہلی بار مزید لاشیں ملی ہیں۔

یونان کے جنوبی ساحلی شہر کالاماتا میں مصر سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا جو مبینہ طور پر اس ٹرالر کے عملے میں شامل تھے، ان پر انسانی سمگلنگ اور غفلت کی وجہ سے انسانی جانوں کے ضیاع کے الزامات ہیں۔

عدالت نے ملزموں اور ان کے وکیلوں کو بچ جانے والے نو شامی اور پاکستانی شہریوں کے بیانات کا جواب دینے کے لیے کل تک کی مہلت دی ہے۔

اس فشنگ ٹرالر پر سوار افراد کے یورپی ملکوں میں مقیم رشتہ داروں کی بڑی تعداد یونان کے شہر کالامات پہنچی ہے، انہیں اپنے پیاروں کی تلاش ہے،20 افراد کو بچ جانے والوں سے ملاقات کی اجازت دی گئی، انہوں نے جالی کے پار سے ان سے بات کی۔

بارسلونا میں مقیم ایک پاکستانی زوہیب شمریز کو اپنے 40 سالہ انکل نعیم کی تلاش ہے، زوہیب نے بتایا کہ کشتی پر سوار ہونے سے پانچ منٹ پہلے انکل نے فون کے ذریعے بات کی تھی، میں نے انہیں کشتی پر سوار ہونے سے منع کیا تھا، میں خوفزدہ تھا، لیکن انکل نے کہا ان کے پاس اور کوئی چوائس نہیں۔

زوہیبب نے بتایا کہ اس کے انکل نے کہا تھا کہ سمگلروں کے پاس تلواریں ہیں اور وپہ انہیں ہانکا کر کے زبردستی کشتی میں سوار کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ سمگلروں کی تعداد کافی ہے اور اگر ہم کشتی پر نہ گئے تو وہ ہمیں قتل کر دیں گے۔

زوہیب اپنے انکل کی تلاش میں ہیں اور ڈی این اے کراس میچ کے لیے نمونے دینے یونان پہنچے ہیں۔ زوہیب کے انکل شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں اور اخاندان پاکستان میں ہے۔

زوہیب نے کہا کہ انکل کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور وہ خاندان کی مالی سپورٹ کے لیے اس رستے سے یورپ ۤنے پر مجبور ہوئے تھے۔

بچ جانے والوں میں پاکستان کے علاوہ مصر، شام، فلسطین اور دیگر ملکوں کے شہری شامل ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version