ٹاپ سٹوریز
70 کی دہائی فلم جس نے بھارتی فلم انڈسٹری کو ہالی وڈ کے برابر کھڑا کیا
ہالی ووڈ کی ایک دو نہیں بلکہ چارفلموں کی کہانیوں سے مماثلت رکھتی بلاک بسٹر فلم شعلے نے سن 70کی دہائی میں ہندی سینما اورفلمی تاریخ کا جغرافیہ بدلا،فلم ڈائریکٹر رمیش سپی کی فلم شعلے نے بالی وڈ کو ہالی وڈ کے برابر لاکھڑا کیا.
2کروڑروپے کے سرمائے سے بنی فلم نے باکس آفس پراپنی اصل لاگت سےکئی سوگنا زیادہ بزنس کیا،ریلیزکے بعد ایک بھارتی سینما گھرمنرواپرمسلسل 5سال زیرنمائش رہی،
سالانہ 800فلموں کا اعزازرکھنے والی بھارتی فلم انڈسٹری میں یقینا کئی مواقع ایسے آئے ہونگے،جب فلموں نے غیرمعمولی بزنس کیا،اورآج بھی انڈین سینما گھروں پرکہیں کہیں چل رہی ہے،جس کی مثال ماضی بعید کی فلم مدرانڈیا اورماضی قریب میں شاہ رخ خان کی دل والے دلہنیا لے جائینگے ،ہے۔
مگر70کی دہائی میں بننے والی ڈائریکٹررمیش سپی کی فلم شعلے نے کچھ ایسے ریکارڈ کیے جوآج بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں،حقیقت میں دیکھا جائے تو فلم شعلےہالی ووڈ کی فلموں کا مکمل چربہ نہ سہی،مگراس میں کہیں نہ کہیں مغربی فلموں سے سرقہ ہونے کی جھلک ضرور ملتی ہے۔
ان فلموں میْن اسپیگھٹی ویسٹرنز،میگنفیسنٹ سیون،بیلی کڈ اوروائلڈ بنچ شامل ہیں،رام گڑھ پہاڑی کے دامن میں واقع ایک قصبے میں فلمائی گئی فلم شعلے کو رمیش سپی کی بہترین صلاحیتوں کا ایک شاہکارقراردیا جاسکتا ہے۔
اس فلم کی شوٹنگ کے دوران واقعہ بڑا مشہورہے،کہا جاتاہے کہ اس فلم کے ایک منظر میں فلم کے ڈائریکٹرکو ڈوبتے سورج کا منظرفلمانا تھا،جس میں دودن لگ گئے،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈائریکٹروہ لائٹ نہیں مل رہی تھی،جو اس کی ضرورت تھی،اس طویل عکسبندی کی وجہ سے پورایونٹ زچ ہوا،اوریہاں تک چہ میگوئیاں ہوئیں کہ ڈوبتے اورچڑھتے سورج میں زیادہ فرق نہیں ہے،یہ منظرصبح بھی فلمبند کیا جاسکتاہے،مگررمیش سپی نے ویسا ہی کیا،جس کی اس نے ٹھان لی تھی اورپھروقت نے ثابت کیاکہ فلم شعلے نے اسی دیوانگی کی حدتک محنت کے سبب کئی نئے ٹرینڈ سیٹ کیے۔
حالانکہ اس سے ملتے جلتے موضوع پراس سے قبل بھی فلمیں بنی ہوں گی،مگریہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ یہ الگ ہی فلم تھی،15 اگست 1975ء کوبھارتی سینما گھروں پرریلیز ہونے والی فلم شعلے کی کاسٹ میں دھرمیندر، سنجیو کمار،امیتابھ بچن، ہیما مالنی،جیا بچن اورامجد خان نے اپنی کردارنگاری کےجوہر دکھائے،پہاڑوں کے دامن میں گھرے ایک قصبے رام نگرمیں عکسبند کی گئی اس فلم کی کہانی ایک سابق پولیس آفیسرٹھاکر کے گردگھومتی ہے،جوایک بدنام زمانہ ڈاکو گبرسنگھ کا زخم خوردہ ہے اوراس کی سرکوبی کے لیے چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث دوقیدیوں جے اورویرو کی خدمات حاصل کرتاہے۔
یہ بھارتی فلمی تاریخ میں سب سے زیادہ منافع بخش فلم رہی،اس نے 7 ارب 68 کروڑ 81 لاکھ روپے (160 ملین امریکی ڈالرز)کی آمدنی حاصل کی،فلم ممبئی کے ایک سینما گھرمنروا میں مسلسل 286 ہفتوں (پانچ سے زائد سال) تک زیرنمائش رہی۔
1970ء کی دہائی کے اواخر1980ء، 1990ء کی دہائیوں اور 2000ء کی دہائی کے اوائل میں سینما گھروں میں ایک مرتبہ پھر جلوہ گر ہو کر اپنی اصل آمدنی میں دگنا اضافہ کیا۔
شعلے بھارت کی تاریخ کی پہلی فلم تھی جس نے ملک کے 100 سے زائد سینما گھروں میں 25 ہفتے تک نمائش کے لیے موجود رہی،حالانکہ جس وقت یہ فلم ریلیز ہوئی تو اسے ایک فلاپ فلم قراردیاگیا،اوررمیش سپی کے مخالفین یا دیگرناقدین نے اسے شعلے کے بجائے چھولے کہنا شروع کردیا تھا،مگروقت نے ثابت کیا کہ وہ تمام تنقید اورآرا غلط ثابت ہوئی۔
ایسی ہی کچھ صورتحال ہالی ووڈ کی فلم ٹائیٹینک کے ساتھ بھی ہوچکی ہے،جب فلمی ناقدین کو اس پہلا شودکھایا گیا،توجس وقت شو کے دوران گل بتیاں دوبارہ جلائی گئیں تو بیشتر کے چہروں پراس فلم کے لیے اچھی رائے نہیں تھی،مگرانگریزی زبان کی اس فلم نے بھی باکس آفس پرکھڑکی توڑبزنس کیا۔
فلم شعلے سے جڑے کچھ حقائق آپ کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہیں، فلم شعلے کو انڈیا کے مشہورفلم ایوارڈ 50سالوں کی بہترین فلم کے ایوارڈ سے نوازاگیا، فلم شعلے کے لیے امیتابھ بچن نے ایک لاکھ روپے جبکہ امجد خان نے پندرہ ہزارروپے معاوضہ لیا، فلم کی کہانی سلیم جاوید(سلیم خان،جاوید اختر)کے زورقلم کا نتیجہ تھی۔
فلم کی ریلیزسے25روز قبل سینسربورڈ کے کہنے پرکلائمکس کوتبدیل کیاگیا، فلم میں گبرسنگھ کے لیے اداکار ڈینی کا انتخاب کیاگیاتھا،مگران دنوں ڈینی کی بطورولن فلم ڈائریکٹرفیروز خان کی مووی دھرماتا کی افغانستان میں شوٹنگ کی وجہ سے انھوں نے رمیش سپی سے معذرت کرلی تھی۔
رائٹرسلیم خان کے کہنے پرامجد خان نے رمیش سپی سے ملاقات کی جوان کے لیے شہرت کا زینہ ثابت ہوا، فلم شعلے کے کچھ ڈائیلاگزبہت زیادہ مقبول ہوئے،مثلا کتنے آدمی تھے؟۔۔۔تیراکیا بنے گاکالیہ،ہم انگریز کے زمانے کے جیلرہیں۔