دنیا

مگرمچھ کا لقب پانے والے 80 سالہ صدر کی ایک اور مدت کے لیے صدارت کی خواہش

Published

on

2017 میں رابرٹ موگابے کو فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے بیدخل کرکے زمبابوے کے دوسرے صدر بننے والے ایمرسن منانگاگوا 80 سال کے ہو چکے ہیں اور ان کا ریٹائرمنٹ کا کوئی ارادہ نہیں۔

اپنی بے رحمی کی وجہ سے ” مگرمچھ” کا خطاب پانے والے منانگاگوا، کو تجزیہ کار اپنے پیشرو سے زیادہ مطلق العنان قرار دیتے ہیں، اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ موگابے کے فکری مزاج اور نظریاتی وژن سے عاری ہیں، اور ایسے انتخابات میں اپنی قیادت کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی آزاد اور منصفانہ ہونے کی توقع بہت کم ہے۔

انتہائی مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آنے والی گرتی ہوئی معیشت کی صدارت کرنے کے بعد، ناقدین کا کہنا ہے کہ ،منانگاگوا اختلاف رائے کو دبانے اور اپوزیشن پر شکنجہ کسنے کی کوشش میں ہیں۔

زمبابوے کے ایک سیاسی محقق برائن رافٹوپولوس نے کہا کہ "وہ ایک انتہائی جابرانہ، آمرانہ شخصیت ہیں۔”

2017 میں، اس وقت کے 93 سالہ موگابے نے منانگاگوا کو نائب صدر کے عہدے سے برطرف کر کے خاتون اول کے لیے راستہ صاف کیا تو اپنی جان کے خوف سے، تجربہ کار سخت گیر جنگجو منانگاگوا ڈرامائی انداز میں سرحد پار موزمبیق فرار ہوگئے تھے۔

منانگاگوا کے بیٹے نے، جو ان کے ساتھ تھا، بتایا تھا کہ اس سفر میں منانگاگوا کو رات کے وقت پہاڑی گرد آلود سوٹ اور پھٹے ہوئے جوتے پہنے بس اسٹاپ پر بیٹھے تھے، اس کے پاس ایکڈالروں سے بھرے بریف کیس کے علاوہ کوئی سامان نہیں تھا۔

لیکن صورت حال ہفتوں کے اندر  تبدیل گئی جب فوجی سربراہان نے صدر موگابے کے خلاف بغاوت کردی اور منانگاگوا ان کے منتخب جانشین کے طور پر ابھرے۔

بین الاقوامی تنہائی

موگابے کی 37 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا اور منانگاگوا نے فاتحانہ انداز میں وطن واپسی کی۔حکمران جماعت کے ساتھ قانون ساز اس کے ساتھ ہو لیے اور انہوں نے صدر کے عہدے کا حلف لیا۔

بعد میں معزول صدر موگابے نے سوگواری کے ساتھ کہا کہا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جس کی میں نے پرورش کی ہے… کہ ایک دن وہ میرے خلاف ہو جائے گا۔

منانگاگوا نے اگلے سال الیکشن 50.8 فیصد کی معمولی اکثریت کے ساتھ جیتا تھا۔ اپوزیشن کے احتجاج کو فوج نے ناکام بنا دیا اور چھ مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ نوجوان اپوزیشن لیڈر نیلسن چمیسا نے نتائج کو عدالت میں چیلنج کیا، لیکن وہ ہار گئے۔دونوں 23 اگست کو دوسرے الیکشن کے لیے ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔

2018 کا الیکشن زیادہ آزادی اور معاشی بحالی کی بڑی توقعات کے ساتھ آیا تھا، لیکن ان امیدوں کو تیزی سے ختم کر دیا گیا۔

زمبابوے بین الاقوامی سطح پر تنہا ہے، اس کی قیادت مغربی پابندیوں کا نشانہ ہے۔منانگاگوا پابندیوں کو ملک کی پریشانیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

ان کے حامی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں بشمول اسکولوں کی تعمیر، پلوں اور سڑکوں کی مرمت کا سہرا ان کے سر باندھتے ہیں۔ زمبابوے 1980 میں برطانیہ سے آزاد ہوا اور منانگاگوا برسوں تک صدر موگابے کے قریبی ساتھی رہے جس کی وجہ سے ان کی سیاسی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا۔

منانگاگوا 2104 میں مخلوط حکومت میں وزیر دفاع بنے اور 2014 میں نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔

قتل عام

صدارت سنبھالنے کے بعد سے منانگاگوا نے خود کو ایک عوای سیاستدان کے روپ میں ڈھالنے کی کوشش کی،وہ جب بھی عوامی جلسوں میں شرکت کرتے ہیں تو ان کے گلے میں زمبابوے کے پرچم کے رنگوں والا سکارف ہوتا ہے۔

وہ 2018 کی ایک ریلی میں دھماکے سمیت کئی واضح قاتلانہ کوششوں کا نشانہ رہے ہیں، 2018 کے دھماکے میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے۔

2017 میں انہیں اپنہ حریف گریس موگابے کی ملکیتی ڈیری کمپنی سے آئس کریم کھانے کے بعد ہنگامی طور پر علاج کے لیے جنوبی افریقہ لے جایا گیا تھا، آئس کریم کے بارے میں ان کے اتحادیوں نے کہا تھا کہ اس میں زہر ملایا گیا تھا۔

1942 میں ایمرسن ڈمبوڈزو منانگاگوا (اس کے درمیانی نام کا مطلب شونا زبان میں "مشکلات”) پیدا ہوئے، اس نے اپنی ابتدائی تعلیم زمبابوے میں مکمل کی ، پھر ان کا خاندان ہمسایہ ملک زیمبیا منتقل ہوگیا۔

1966 میں، وہ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوئے، ان نوجوان جنگجوؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے چین اور مصر میں تربیت حاصل کرنے کے بعد جنگ کی رہنمائی میں مدد کی۔ان کے لقب کی ایک وجہ جدوجہد آزادی میں ان کا "مگرمچھ گینگ” گوریلا یونٹ بھی ہے۔

ٹرین کو دھماکے سے اڑانے کے بعد، انہیں 1964 میں گرفتار کیا گیا تھا اور موت کی سزا سنائی گئی تھی، بعد میں کی کم عمری کی وجہ سے سزا کو 10 سال قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا – اس واقعہ نے انہیں عمر بھر کے لیے سزائے موت کا مخر مخالف بنا دیا۔

آزادی کے بعد، وہ مبینہ طور پر حزب اختلاف کے حامیوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار تھے، اس کریک ڈاؤن نے بنیادی طور پر اقلیتی ندبیلے نسلی گروہ کی ہزاروں جانیں لی تھیں جسے عام طور پر "گوکورہونڈی قتل عام” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قتل عام ان کی ساکھ پر سب سے بڑا داغ بنا ہوا ہے۔

منانگاگوا نے اعتراف کیا ہے کہ یہ زمبابوے کی تاریخ میں ایک "خراب ورق” تھا۔اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انہوں نے دیرینہ شکایات کو دور کرنے کے لیے قبائلی سرداروں سے بات چیت کی۔دو سال قبل انہوں نے قتل عام کی تحقیقات کے لیے سربراہان کا ایک پینل تشکیل دیا تھا جس میں زمبابوے کیتھولک کمیشن برائے انصاف اور امن کے تخمینے کے مطابق 20,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔لیکن اس کمیشن کی سماعتیں ابھی تک نہیں ہوئیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version