ٹاپ سٹوریز
نگران حکومت کا ’ کچھ نہ کرو‘ کا رویہ ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا، پاکستان بزنس کونسل
پاکستان بزنس کونسل ( پی بی سی)، جو ملک کے سب سے بڑے کارپوریٹ ایڈووکیسی پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے، نے نگران حکومت کے ’ کچھ نہ کرنے‘ کے روئیے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صرف ’ معیشت کی انفارملائزیشن‘ میں اضافہ ہوگا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس ( جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا) پر ایک پوسٹ میں پی بی سی نے کہا کہ معیشت میں درکار بنیادی اصلاحات میں سے چند ایک، جیسے ریاستی ملکیتی اداروں اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری یا تنظیم نو، نگران حکومت کے دائرہ کار سے باہر ہو سکتی ہے۔ تاہم، کھلم کھلا اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ، بجلی کی چوری، افغان ٹرانزٹ ٹریٹی کا غلط استعمال، ریٹیل، ہول سیل اور غیر دستاویزی رئیل اسٹیٹ سیکٹرز کے ذریعے ٹیکس چوری، یہ سب قانون کے خلاف ہیں،یہ کسی بھی حکومت کے اختیارات کے اندر ہے۔
Of the long list of fundamental reforms required in our economy, some such as privatization/restructuring of SOEs & DISCOS, may be beyond the Caretaker Government’s remit. However, blatant smuggling, under-invoicing, theft of electricity, misuse of the Afghan Transit Treaty, tax…
— The Pakistan Business Council (@ThePBC_Official) September 4, 2023
ایڈوکیسی باڈی نے کہا کہ "کچھ نہ کرو” کا طریقہ مثبت جذبات یا امید پیدا کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ "یہ صرف معیشت کی انفارملائزیشن کو تیز کرتا ہے۔کچھ دانت دکھانے کا وقت ہے۔
یہ ریمارکس پی بی سی کے اس انتباہ کے چند دن بعد سامنے آئے ہیں کہ امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کی جاری تیزی سے گراوٹ پاکستان کے لیے "ایک زبردست طوفان” ہے۔
گزشتہ ماہ، عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں نگراں کابینہ نے چارج سنبھالا، جو بنیادی طور پر نئے انتخابات تک ملک کو چلانے کی ذمہ دار ہے، تاکہ پاکستان کو معاشی استحکام کی طرف لے جا سکے۔
کچھ دن پہلے، کاکڑ نے کہا تھا کہ عبوری حکومت اپنی مختصر آئینی مدت کے دوران اخراجات، محصولات کو انسانی وسائل کی ترقی کو معقول بنانے پر زیادہ توجہ دے گی۔
تاہم، نگران حکومت کی بے عملی نے تنقید کو اس وقت جنم دیا ہے جب اوپن مارکیٹ میں روپیہ بہت گرا ہے، جس سے غیر رسمی بازاروں میں ڈالر کی آمد کو موڑنے میں مدد ملی ہے۔