دنیا

باغی فوجی گروپ کے سربراہ پریگوژن کے قتل کا فیصلہ ہو گیا تھا، صدر پیوٹن کو کس نے روکا؟

Published

on

بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا ہے کہ نجی فوجی گروپ کی بغاوت پر صدر پیوٹن ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوژن کا خاتمہ چاہتے تھے لیکن میں نے انہیں ایسا کرنے سے روکا۔

ویگنر گروپ کی بغاوت کو صدر پیوٹن نے 1917 کے جنگ کے زمانے کے بحران اور پھر خانہ جنگی سے تشبیہہ دی تھی اور اس بغاوت کو کچلنے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن بعد میں بیلاروس کے صدر کی ثالثی پر ویگنر گروپ کے سربراہ اور چند دیگر جنگجوؤں کو بیلاروس جلاوطن کرنے پر راضی ہو گئے تھے۔ یوگینی پریگوژن اس ڈیل کے بعد بدھ کے روز بیلاروس پہنچ چکے ہیں۔

بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے صدر پیوٹن سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ میں جان چکا تھا کہ باغیوں کا صفایا کرنے کا ظالمانہ فیصلہ ہو چکا تھا، میں نے صدر پیوٹن کو مشورہ دیا کہ جلد بازی نہ کریں، پریگوژن اور اس کے کمانڈروں سے بات کریں، پیوٹن نے جواب دیا کہ یہ سب بے سود ہے، پریگوژن بات نہیں کرنا چاہتا، وہ فون کال بھی وصول نہیں کر رہا۔۔

صدر لوکاشینکو کے اس بیان پر ابھی تک روس کے صدارتی محل نے تبصرہ نہیں کیا۔

صدر لوکاشینکو نے کہا کہ میں نے صدر پیوٹن کو مشورہ دیا کہ اپنی ذات سے آگے کا سوچیں،پریگوژن کی موت نجی گروپ کی بڑے پیمانے پر بغاوت میں بدل سکتی ہے۔

پریگوژن اور اس کے جنگجوؤں کو بیلاروس میں آزادی سے رہنے کی اجازت ہے، ویگنر گروپ انتہائی بہترین فوجی تربیت یافتہ یونٹ ہے،صدر لوکاشینکو نے کہا کہ ان کی فوج اس گروپ سے فائدہ اٹھاسکتی ہے، کون سا ہتھیار کس موقع پر کامیاب رہا اور کہاں ناکامی ہوئی، ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

پریگوژن نے اس بغاوت کو مارچ آف جسٹس کا نام دیا تھا اور صدر لوکاشینکو کی مداخلت کے بعد اس کے جنگجوؤں کا مارچ ماسکو سے صرف دو سو کلومیٹر دوری پر تھا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version