تازہ ترین
حکومت نے دو دہشتگرد گروہوں حافظ گل بہادر گروپ اور مجید برگیڈ کو کالعدم قرار دے دیا
دہشتگردی میں ملوث دو تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا،وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد دونوں جماعتوں کو نیکٹا نے کالعدم جماعتوں کی لسٹ میں ڈالا۔
وزرات داخلہ ذرائع کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ، اور مجید برگیڈ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے،دونوں جماعتوں کو دو سال تک نگرانی کے بعد کالعدم قرار دیا گیا۔ملک میں کالعدم جماعتوں کی تعداد 81 ہوگئی ہے۔
حافظ گل بہادر کون ہیں؟
حافظ گل بہادر کا تعلق پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل سے ہے۔ انہوں نے دینی تعلیم تحصیل میر علی کے مدرسے دارالعلوم نظامیہ عیدک سے حاصل کی جس کے بعد وہ جمعیت علماء اسلام کی طلبہ تنظیم کے فنانس سیکریٹر اور بعدازاں اس کے پریس سیکرٹری رہے۔
گل بہادر نہ صرف نظریاتی طور پر افغان طالبان سے متاثر تھے بلکہ وہ افغان طالبان کے قریب بھی تھے۔ حافظ گل بہادر نے شمالی اتحاد کے خلاف افغان طالبان کے ساتھ مل کر لڑائی میں کسی حد تک حصہ بھی لیا۔ لیکن جب گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ افغانستان آیا تو اس حوالے سے ان کی جہادی مصروفیات بڑھ گئیں۔ شمالی وزیرستان میں اہم افغان طالبان رہنماؤں کی مدد اور ملاقاتوں میں وہ پیش پیش رہے۔
شمالی وزیرستان میں گل بہادر کے رابطے حقانی نیٹ ورک اور بعد ازاں القاعدہ کے ساتھ قائم ہوئے اور جب دہشت گردی کے خلاف شمالی وزیرستان میں کارروائیوں کا آغاز ہوا، اس وقت انہوں نے پاکستان اور افغانستان میں لڑنے کے لیے ‘شوریٰ مجاہدین وزیرستان’ کے نام سے اپناالگ گروپ بنایا۔
افغانستان کے لیے دتہ خیل میں ان کے گروپ کے زیراہتمام ایک خودکش ٹریننگ کیمپ بھی چلتا رہا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈرون حملے شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں ہوئے اور ہلاک ہونے والے غیرملکی جنگجوؤں کی تدفین بھی دتہ خیل میں ہی ہوتی رہی۔
ڈرون حملوں کے لیے اہداف کی نشاندہی کرنے والوں کی ٹارگٹڈ کلنگ کے لیے "تورہ شپہ” یعنی کالی رات ڈیتھ اسکواڈ کے لیے سب سے زیادہ افرادی قوت حافظ گل بہادر گروپ نے فراہم کی تھی۔ اس اسکواڈ میں مختلف تنظیموں کے جنگجو شامل تھے۔
کمانڈرحافظ گل بہادر کے اہداف افغانستان میں تھے جب کہ ٹی ٹی پی زیادہ تر پاکستان میں فعال رہی اس لیے کمانڈر حافظ گل بہادر نے ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطے بحال رکھے لیکن باضابطہ شمولیت سے گریز کیا۔
کمانڈر حافظ گل بہادر کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ماضی میں شمالی وزیرستان انتظامیہ نے اس گروپ کے ساتھ ستمبر 2006ء میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ وزیرستان میں ہونے والے معاہدوں میں خصوصی طور پر حکومت کی جانب سے شق ڈالی جاتی کہ شمالی وزیرستان سے افغانستان جنگجو نہیں بھیجے جائیں گے۔ لیکن ان معاہدوں کی پاسداری مشکل سے ہوتی رہی ۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں موجود تمام گروہوں کے خلاف بلاتفریق ‘آپریشن ضربِ عضب’ کا آغاز کیا تو دیگر عسکریت پسند گروہوں کی طرح حافظ گل بہادر نے بھی پاک افغان سرحد پار کرکے افغانستان کے صوبہ خوست میں پناہ لی۔
حافظ گل بہادر گروپ افغانستان میں رہتے ہوئے بھی خاصا متحرک رہا۔ عمائدین شمالی وزیرستان نے افغان صوبہ پکتیکا کے علاقے لمن میں حافظ گل بہادر سے کئی ملاقاتیں کی۔ افغانستان میں رہتے ہوئے حافظ گل بہادر کے کالعدم ٹی ٹی پی سے بھی رابطے مزید مضبوط ہوئے اور جب ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومتِ پاکستان کے مذاکرات کی بات چلی تو حافظ گل بہادر سے بھی مذاکرات ہوئے جو ناکامی سے دوچار ہوئے۔
اس کے بعد حافظ گل بہادر شدید مخالفت کی طرف چلے گئے تھے جس کی وجہ سے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔
حقانی نیٹ ورک، القاعدہ، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ساتھ رفاقتوں اور طویل عرصے تک اس خطے میں لڑنے کا تجربہ رکھنے والے کمانڈر حافظ گل بہادر کے گروپ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
حافظ گل بہادر کو عموماً حقانی نیٹ ورک کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر اس لیے بھی ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے مراکز شمالی وزیرستان میں تھے جہاں حافظ گل بہادر نے ان کا ہر سطح پر ساتھ دیا تھا۔
حافظ گل بہادر چوں کہ وزیر قبیلے کی ذیلی شاخ مداخیل سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے پاک افغان سرحد پر واقع اسی قبیلے کے زیادہ تر جنگجو اس گروپ کا حصہ ہیں۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ مارچ 2011ء میں کرومائٹ کی ملکیت کے حوالے سے منعقدہ جرگے پر ڈرون حملے میں چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس جرگے میں کمانڈر حافظ گل بہادر کی موجودگی کی اطلاع تھی تاہم وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔
سال 2014ء کے بعد افغانستان میں قیام کے دوران افغان جنگجوؤں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد حافظ گل بہادر گروپ میں شامل ہوئی۔ جانی خیل سے تعلق رکھنے والے صدرحیات، داوڑ قبیلے سے تعلق رکھنے والے مفتی صادق نور اور صدیق اللہ ان کی مرکزی شوریٰ میں شامل ہیں۔
مجید برگیڈ کیا ہے؟
صوبہ بلوچستان سمیت پاکستان کےدیگر شہروں میں چینی باشندوں پر حملوں میں مجید بریگیڈ نامی گروہ ملوث رہا ہے۔
مجید بریگیڈ کیا ہے؟
17مارچ 2010 کواسلم بلوچ نامی شخص نے بی ایل اے کے نئے دھڑے مجید بریگیڈ کے قیام کا اعلان کیا جس کو مجید جونیئر کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ مجید جونیئر بی ایل اے کا رکن اور اسی روز فورسز کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
مجید نام کے ایک اور نوجوان نے 2 اگست 1974 کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر اس وقت حملہ کرنے کی کوشش کی جب وہ ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اس نوجوان کے پاس دیسی ساخت کا بم تھا جو بھٹو تک پہنچنے سے پہلے پھٹ گیا تھا۔ یہ نوجوان مجید سینیئر تھا جس کا چھوٹا بھائی 2010 میں کوئٹہ میں مارا گیا تھا۔
مجید برگیڈ کی پہلی بڑی کارروائی 30 دسمبر 2011 کو کوئٹہ کے علاقے ارباب کرم خان روڈ پر واقع ایک مکان پرحملہ تھا، یہ حملہ انتہائی شدید تھا اور دو کلومیٹر سے زیادہ علاقے میں اس کی آواز اور شدت کے اثرات محسوس کیے گئے تھے۔
یہ مکان سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا جسے حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں وہ خود تو محفوظ رہے ان کے کئی ساتھی اس میں مارے گئے تھے۔
شفیق مینگل پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ خضدار اور وڈھ کے علاقے میں ڈیتھ سکواڈ چلاتے تھے جو لوگوں کے اغوا اور قتل میں ملوث تھا لیکن وہ اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔
اس کے بعد پھر ایک طویل خاموشی رہی اور مجید بریگیڈ کی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔
پھر 11 اگست 2018 کو ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں سیندک پراجیکٹ میں کام کرنے والے چینی انجینئروں کی بس پر حملہ ہوا۔ یہ بھی خودکش حملہ تھا۔
اس حملے کے حوالے سے مجید بریگیڈ کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ یہ ان کے رکن ریحان اسلم نے کیا تھا جو تنظیم کے سربراہ اسلم بلوچ کا بیٹا تھا۔
اس حملے کے بعد 23 نومبر 2018 کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ ہوا اور اس فدائی حملے کی ذمہ داری بھی اسی گروہ نے قبول کی تھی۔
کراچی حملے کے بعد 25 دسمبر 2018 کو کالعدم بی ایل اے کے سربراہ اور مجید بریگیڈ کا خالق اسلم بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ایک خودکش حملے میں مارا گیا۔
اسلم بلوچ کے مارے جانےکے بعد بھی مجید بریگیڈ زیرزمین کام کرتا رہا اور اس کا نتیجہ 11 مئی 2019 کو گوادر میں پی سی ہوٹل (پرل کانٹینینٹل ہوٹل) پر حملے کی صورت میں سامنے آیا جو ایک بڑا حملہ تھا اور اس میں ایک محفوظ ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بی ایل اے مجید بریگیڈ کی طرف سے دعوی کیا گیا تھا کہ ان کے خودکش حملہ آور 24 گھنٹے تک ہوٹل پر قابض رہے جس میں انہوں نے کئی چینی اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔
پھر اس سے اگلے سال 29 جون 2020 کو پاکستان سٹاک ایکسچینج کراچی پر چار خودکش حملہ آوروں نے یلغار کی جو بعد میں فورسز کے جوابی کارروائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔
دا بلوچستان پوسٹ ویب سائٹ کے، جو بلوچستان میں مزاحمتی تنظیموں کے حملوں کے دعوے اور ان کی دیگر سرگرمیوں کی خبریں شائع کرتا ہے، مطابق اس وقت مجید بریگیڈ کی کمان حمل ریحان بلوچ کر رہے تھے۔
وہ ایک طویل عرصے تک گمنام رہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ بلوچی، براہوی، اردو اور انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔
اس گروپ کی طرف سے فروری 2022 میں نوشکی اور پنجگور میں فرنٹیئر کور کے کیمپوں پر حملے کیے گئے۔ یہ حملے جدید اسلحے اور دیگر آلات کے ساتھ کیے گئے تھے۔
مجید بریگیڈ نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حملہ آور کیمپ کے اندر تک چلے گئے تھے لیکن سکیورٹی فوسز کا کہنا تھا کہ انہیں داخل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا۔
نوشکی میں حملہ آور جلد مارے گئے تاہم پنجگور میں طویل آپریشن کے بعد فورسز نے حملہ آوروں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس دوران ٹیلی گرام ایپ اور سوشل میڈیا پر حملہ آوروں کے آڈیو پیغامات بھی چلتے رہے جس میں وہ کارروائی کے بارے میں اپنے کمانڈر کو صورت حال سے آگاہ کرتے رہے۔
اسلم بلوچ کے بارے میں دا بلوچستان پوسٹ میں ایک شائع مضمون میں بتایا گیا کہ وہ کوئٹہ کے علاقے ٹین ٹاؤن کے رہائشی تھے۔
ان کا تعلق دہوار قبیلے سے تھا۔ وہ نواب خیر بخش مری کے سٹڈی سرکل میں بھی باقاعدہ شرکت کرتے تھے۔