تازہ ترین

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کالعدم قرار دے دی

Published

on

برطرفی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کوسپریم کورٹ  سے بڑاریلیف مل  گیا،سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی  کالعدم قراردیدی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بلاشبہ شوکت صدیقی نے فیض حمید پر سنگین الزامات لگائے، شوکت صدیقی کو اپنے الزامات ثابت کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، عدالت نے اس خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو نوٹس جاری کیے جن پر الزامات لگائے گئے، تمام فریقین نے الزامات سے انکار کیا، یہ ضروری تھا کہ جوڈیشل کونسل ان الزامات کی تحقیقات کرتی کہ کون سچ بول رہا ہے، شوکت عزیز صدیقی کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم رکھا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کاروائی میں ہمیشہ شواہد ریکارڈ کیے جاتے رہے، مظاہر نقوی کیس میں 14 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے اور شواہد پیش کیے گئے، اس کیس کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو عدلیہ کی آزادی، دوسرا بغیر کسی خوف یا لالچ کے آزادی کے ساتھ فیصلے کرنا اور عدلیہ کی خود احتسابی، کسی جج کو شفاف ٹرائل کے بغیر ہٹانا عدلیہ کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے، عدالت کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ درخواستیں مفاد عامہ کے تحت قابلِ سماعت ہیں، عدلیہ کی آزادی کے بغیر بنیادی حقوق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں بتایا تھا کہ شوکت صدیقی نے اپنے حلف کی کیسے خلاف کی تھی، انکوائری کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ شوکت صدیقی کے الزامات جھوٹے تھے، ججوں کا حلف انہیں بار ایسوسی ایشن یا کسی عوامی اجتماع میں تقریر کرنے سے نہیں روکتا

عدالتی فیصلے میں 22 جولائی 2018 کے آرمی چیف کے خط اور 24 جولائی 2018 کے وفاقی حکومت کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آرمی چیف اور وفاقی حکومت کی جانب سے دو شکایات بھیجی گئیں جن میں الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا، شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات اس لیے بھی ضروری تھیں کیونکہ آرمی چیف اور وفاقی حکومت کو ان الزامات کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں تھا، وہ وفاقی حکومت جو 24 جولائی 2018 کے خط میں یہ کہہ رہی تھی کہ الزامات کا تعین ہونا چاہیے اسی حکومت نے 10 جون 2021 کو ایک بیان جمع کروایا کہ یہ الزامات ہی بے بنیاد ہیں، اٹارنی جنرل کے ذریعے جمع کروائے گئے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ شوکت صدیقی کے الزامات بے بنیاد تھے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں قرار دیاکہ  شوکت صدیقی ہائیکورٹ سے ریٹائرڈ جج ہوں گے،ریٹائرمنٹ عمر کی وجہ سے اب انہیں بطور جج بحال نہیں کیا جا سکتا۔

23 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچ گئے، ریٹائرمنٹ عمر کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کو  بطور جج بحال نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے 23 جنوری کو شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنا دیا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version