تازہ ترین
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کا منفرد ریکارڈ
پاکسان کی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے پر جج، بیورو کریٹ، وکلا، بینکرز اور سیاست دان فائر رہے ، کوئی اسی عہدے سے آگے بڑھ کر صدر مملکت اور کوئی نگران وزیر اعظم بنا لیکن نئے چئیرمین سینٹ نے نئی تاریخ رقم کر دی۔سینئر سیاست دان یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے بلا مقابلہ چیئرمین بن گئے۔ وہ پہلے سابق وزیر اعظم ہیں جو چیئرمین سینیٹ بنے ہیں، وزیر اعظم بننے سے پہلے وہ سپیکر قومی اسمبلی رہے۔
یوسف رضا گیلانی 8 فروری 2024 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے لیکن انہوں نے جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان سے اپنی نسشت سے استعفی دے دیا۔اس سے پہلے وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے والا کوئی سیاست دان سینیٹ کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائر نہیں رہا، یوسف رضا گیلانی اپنے عہدے کے اعتبار سے قائم مقام صدر بھی ہونگے۔
یوسف رضا گیلانی 9ویں چیئرمین سینٹ ہیں اور پانچویں سیاست دان ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے. ان سے پہلے آٹھ چیئرمین سینیٹ منتخب ہو چکے ہیں، ان میں پہلے سے جسٹس ریٹائرڈ خان حیبیب اللہ خان تھے ان کے بعد بیورو کریٹ اور سابق وزیر خزانہ غلام اسحاق خان، جانے مانے وکیل وسیم سجاد، بینکر محمد میاں سرمرو، مشہور وکیل فاروق ایچ نائیک، پیشے کے اعتبار سے وکیل نیئر بخاری، نامور پارلیمنٹرین اور وکیل رضا ربانی اور سیاست دان صادق سنجرانی شامل ہیں۔
ماضی میں زیادہ دور کی بات نہیں ہے محمد میاں سومرو واحد چیئرمین سینیٹ تھے جو نگران وزیر اعظم کے عہدے پر بھی رہے۔ 2007 میں جب قومی اسمبلی کو معیاد مکمل ہونے پر تحلیل کیا گیا تو اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے نگران وزیر اعظم کے عہدے کیلئے محمد میاں سومرو کو نامزد کیا۔ یہ بھی پہلا موقع تھا جب کسی چیئرمین سینیٹ کو نگران وزیر اعظم کی ذمہ داریاں دیں گئیں۔
صدر مملکت کی عدم دستیابی پر یہ چیئرمین سینیٹ ہی ہوتے ہیں جو قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں، اس لیے اس عہدے پر فائر رہنے والے چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان، جنرل ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد نا صرف عبوری مدت کیلئے قائم صدر مملکت رہے بلکہ انہوں نے صدر مملکت کے عہدے پر انتخاب لڑا اور کامیاب ہو گئے۔
غلام اسحاق خان پہلے چیئرمین سینیٹ تھے جو صدرمملکت بنے۔ ان کی اُس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے مکمل حمایت کی۔ غلام اسحاق خان کا مقابلہ سیاست دان نواب زادہ نصر اللہ خان کے ساتھ ہوا۔
1993 میں جب غلام اسحاق خان کے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے اختلافات ہوئے تو دونوں کو ایک معاہدے کے تحت مستعفی ہونا پڑا۔ ماضی کی طرح آئینی تقاضے کے تحت اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے عبوری معیاد کیلئے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا جب تک نئے صدر مملکت کا انتخاب نہیں ہوگیا۔
وسیم سجاد بھی اپنے پیش رو غلام اسحاق خان کی طرح قائم مقام صدر ہوتے ہوئے صدر مملکت کے انتخاب کیلئے امید وار کی حیثیت سے میدان میں آئے۔ وسیم سجاد غلام اسحاق خان کی طرح قسمت کے دھنی نہیں نکلے اور وہ صدارتی انتخاب میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی کابینہ کے وزیر خارجہ سردار فاروق احمد خان لغاری سے ہوا جس میں وہ اپنے مدمقابل امیدوار سے ہار گئے۔
1997 میں صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری کے نواز شریف سے اختلافات ہوئے تو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا اور پھر عبوری عرصے کیلئے وسیم سجاد چیئرمین سینیٹ ہونے کی وجہ سے قائم مقام صدر بن گئے۔ اس مرتبہ وسیم سجاد قائم مقام صدر تو ضرور بنے لیکن انہوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا تاہم مسلم لیگ نون نے اس مرتبہ صدارتی امیدوار کیلئے سینیٹ کے رکن کو امیدوار چنا۔
سینیٹر جسٹس ریٹائرڈ رفیق تارڑ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے اپنے مقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار آفتاب شعبان میرانی کو شکت دی وہ پہلے سینیٹر تھے جو صدارتی امیدوار کیلئے چنے گئے۔ اس طرح شوکت عزیز وہ رکن سینیٹ تھے جن کو وزیر اعظم کے منصب کیلئے امیدوار کے طور پر اُس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ قاف نے امید وار کے حیثیت سے میدان میں اتارا۔
شوکت عزیز سینیٹر ہوتے ہوئے وزیر خرانہ تھے اور پھر انہوں نے اٹک کے انتخابی حلقے سے انتخاب لڑا اور رکن قومی اسمبلی بن گئے۔ شوکت عزیز پہلے سینیٹر تھے جو وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچے۔ 2023 کو قومی اسمبلی تحلیل ہوئی تو وزیر اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر نے باہمی رضا مندی کے ساتھ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم بنا دیا۔ انوار الحق کاکڑ نگران وزیر اعظم کا عہدے سنبھالنے کے بعد سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اور اب 2 اپریل کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں دوبارہ سینیٹ کے رکن بن گئے۔
1973 نے آئین کے تحت سینیٹ تحلیل نہ ہونے والا ایوان بالا ہے۔ پارلیمنٹ کا ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی تو تحلیل ہو جاتی ہے لیکن سینیٹ برقرار رہتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ سینیٹ دو مرتبہ تحلیل ہوا۔ پہلے اُس وقت جب جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا اور دوسری مرتبہ جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا۔ پہلی مرتبہ جب سینیٹ تحلیل ہوا تو اُس وقت حبیب اللہ خان چیئرمین سینیٹ تھے اور جب 1985 میں یہ ایوان بحال ہوا تو اُس وقت جنرل ضیا الحق کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان کو اس کا چیئرمین منتخب کرایا گیا۔ اسی طرح جنرل پرویز کے دور میں تحلیل ہونے والے سینیٹ کی بحالی کے بعد محمد میاں سومرو چیئرمین بنے۔ محمد میاں سومرو اس سے پہلے گورنر سندھ رہ چکے تھے۔
چیرمین سینیٹ کے عہدے کی آئینی معیاد تین برس ہے اور یہ معیاد مکمل ہونے پر دوبارہ بھی انتخاب لڑا جاسکتا ہے۔ اب تک سب سے زیادہ عرصہ چیئرمین سینیٹ رہنے والوں میں حیبیب اللہ خان، غلام اسحاق خان، وسیم سجاد، محمد میاں سومرو اور سبکدوش ہونے والے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی شامل ہیں۔ صرف تین سینیٹرز فاروق ایچ نائیک، نیئر بخاری اور رضا ربانی ہی تین برس کیلئے چئیرمین سینیٹ کے عہدے پر رہے اور معیاد مکمل ہونے پر دوبارہ چیئرمین نہیں بنے۔
وسیم سجاد، فاروق ایچ نائیک اور رضا ربانی مخلتف کابینہ میں وزیر قانون کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں جبکہ پہلے چیئرمین سینیٹ حیبیب اللہ خان اور نیئر بخاری کا تعلق قانون کے شعبے سے رہا ہے۔
2023 میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو صدر مملکت کی عدم دستیابی پر اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ نے کابینہ کے ارکان سے حلف لیا تھا۔