کالم
حماس نے الاقصیٰ آپریشن سے کیا حاصل کیا؟
فلسطینی گروپ حماس نے اسرائیل پر اچانک اور انتہائی منصوبہ بند حملہ کیوں کیا؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اس حملے کے نتیجے میں ارائیلی بمباری غزہ کو ملبے کو ڈھیر بنا چکی ہے تو اس سے کیا ملا؟ یہ تنازع کیا رخ اختیار کرے گا اور کس حد تک مشرق وسطیٰ کو لپیٹ میں لے گا؟
یہ وہ سوالات جو ہفتہ کے روز اسرائیل کے لیے سرپرائز حماس حملے پر پیدا ہوئے ہیں۔ حماس کے حملے کے نتیجے میں اسرائیلی بمباری یقینی تھی اور غزہ میں املاک اور جانوں کا نقصان بھی، حماس بھی اس بات کو جانتی ہے لیکن اس کے خیال میں یہ اس کی کارروائیوں کی ایک قیمت ہے جو چکانا پڑتی ہے اور وہ اس کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں۔
اس حملے کے پیچھے کئی ایک عوامل کارفرما ہیں، حماس غزہ پر کنٹرول رکھتی ہے لیکن فلسطینی دھڑوں کے اندر کنٹرول کی ایک کشمکش بھی ہے، حماس کو اسلامک جہاد گروپ کی طرف سے اتھارٹی کا چیلنج بھی درپیش ہے، اسلامک جہاد گروپ بھی اسرائیل پر راکٹ حملے کرتا رہتا ہے اور اسرائیل جواب میں غزہ پر بمباری کرتا ہے۔
اس سے بھی بڑی وجہ اسرائیل پر مکمل انتہاپسند دائیں بازو کی حکومت ہے، یہ اسرائیلی تاریخ کی کی بدترین متعصب اور کٹر حکومت ہے جو مغربی کنارے کو اسرائیل میں مکمل ضم کرنا چاہتی ہے اور اس خواہش یا ارادے کو اس نے کبھی چھپایا بھی نہیں، بلکہ مغربی کنارے پر قبضے اور ناجائز صیہونی بستیوں کی توسیع پر عمل کو تیز کئے ہوئے ہے۔
ناجائز صیہونی بستیوں کی وجہ سے نوجوان فلسطینیوں نے پہلے سے موجود دھڑوں کے مقابلے میں ایک گروپ 2002 میں تشکیل دیا جو عرین الاسود یا لائنز ڈین کہلاتا ہے۔
یہ گروپ، آزاد عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے جس کا بظاہر کوئی مرکزی کنٹرول نہیں ہے، فلسطینی اتھارٹی کے لیے بہت کم اہمیت رکھتی ہے، جو مغربی کنارے پر حکومت کرتی ہے اور اس کی قیادت عمر رسیدہ لیڈر محمود عباس کر رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس علاقے میں بہت کم حقیقی انتظامی، سیکورٹی یا اخلاقی اختیار ہے۔
عرین الاسود یا لائنز ڈین فلسطینی نوجوانوں میں اثر و رسوخ کے لیے غزہ اور مغربی کنارے میں عسکریت پسند گروپوں سے بھی مقابلہ کرتا ہے۔
نیتن یاہو کے اتحاد میں شامل ایک وزیرایتمار بن غفیر مسجد الاقصیٰ کمپاؤنڈ کے دورے کر کے فلسطینیوں کے خدشات کو ہوادی، کسی بھی اسرائیلی عہدیدار کا دورہ انتہائی اشتعال انگیز ہے، ایتمار بن غفیر کے دورے کے بعد اسرائیلی آبادکاروں کے جتھے الاقصٰی کمپاؤنڈ میں گھسنے کی آئے روز کوششیں کرتے ہیں۔
ایریل شیرون نے 2000 میں ٹیمپل ماؤنٹ کا دورہ کیا تھا، وہ اس وقت اسرائیل کی حکومت میں حزب اختلاف کے رہنما تھے، اس دورے کو کو عام طور پر وہ چنگاری سمجھا جاتا ہے جس نے 2000-2005 کے درمیان دوسرے انتفاضہ کو بھڑکایا۔
اسرائیل کی بنیاد سے پہلے والے ایک معاہدے کے تحت، الاقصیٰ کمپاؤنڈ کانگہبان اردن ہے۔ اسرائیل نے 1994 میں اسرائیل-اردن امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اسرائیلی وزراء اور غیر مسلم سیاحوں کے دوروں کو فلسطینی عوام اس مقام کے تقدس کی توہین کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ دورے اس معاہدے کے خلاف ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ حماس نے اپنی کارروائی کو "آپریشن الاقصیٰ فلڈ” کا نام دیا ہے۔ اس سے اس وقت حملے کی بنیادی وجہ کے بارے میں کچھ اشارے ملتے ہیں، جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ حماس کا یہ آپریشن مقدس اسلامی مقام کی بے حرمتی کا بدلہ ہے۔
تاہم، ایک اضافی محرک عنصر ممکنہ طور پر عرب ریاستوں کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان تھا، جیسا کہ متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش پر مشتمل 2020 کے ابراہیم معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے۔
حال ہی میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنا معاہدہ کرنے والا ہے۔
یہ تمام فلسطینیوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے، نہ صرف مغربی کنارے میں رہنے والے، کیونکہ اس سے اسرائیل پر ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے دباؤ میں مزید کمی آتی ہے۔ نیتن یاہو نے اپنے عوامی بیانات میں واضح کیا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ حتمی امن پر عرب ریاستوں کے ساتھ امن کو ترجیح دیتے ہیں۔
حماس اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی لیکن اس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی 1967 کی سرحدوں تک پیچھے ہٹتا ہے تو وہ جنگ بندی کی پابندی کرے گی۔ اسرائیل کا حماس کی بات ماننے اور مطالبے کے مطابق دستبردار ہونے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنا معاہدہ خود کر لے تو اس شرط کے کبھی بھی پورا ہونے کے امکانات کم ہوں گے۔
ٹائمنگ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ اکتوبر 1973 میں یوم کپور یا رمضان جنگ کے آغاز کی 50 ویں سالگرہ کے تقریباً عین وقت پر کیا گیا ہے۔
چنانچہ اس وقت حماس کے حملے کے کئی مقاصد تھے – اور ممکنہ طور پر ان کا ایک مجموعہ۔
حماس کو وسیع تر عرب دنیا سے بہت زیادہ ہمدردی حاصل کرنے کا امکان ہے، لیکن مادی امداد کی توقع بہت کم ہے۔ حماس کی فوجی کارروائی ممکنہ طور پر سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے روک دے گی۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ابراہم معاہدے پر دستخط کرنے والی کوئی بھی عرب ریاست غزہ کے خلاف اسرائیلی انتقامی کارروائیوں پر احتجاجاً اب ان سے دستبردار ہو جائے۔
تنازع کس طرف جا رہا ہے؟
یہ واضح نہیں ہے کہ تنازعہ کس طرف جا رہا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ عسکریت پسند گروپ پہلے ہی اسرائیل کے شمال میں اسرائیلی پوزیشنوں پر فائرنگ کر چکا ہے۔ لیکن یہ کس حد تک سنجیدگی سے شامل ہوگا اس کا انحصار ایران پر ہوگا۔
تہران کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی صورت میں حزب اللہ کے راکٹ اور میزائل طاقت کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
یہ سوال بھی ہے کہ کیا مغربی کنارے میں "لائنز ڈین” کے عسکریت پسند اپنے حملے شروع کریں گے، جس سے مؤثر طریقے سے اسرائیل کے خلاف تیسرا محاذ تشکیل دیا جائے گا۔ اور ممکنہ چوتھا محاذ اسرائیل میں رہنے والے عرب اسرائیلیوں کے یہودی اسرائیلیوں پر حملوں سے آ سکتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن پہلے ہی اسرائیل کے لیے حمایت کا وعدہ کر چکے ہیں، لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ آخر کار اسرائیل ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ نیتن یاہو نے ایک طویل جنگ کا انتباہ دیا ہے، لیکن اگر اسرائیل جوابی کارروائی کو تیزی سے آگے بڑھاتا ہے تو یہ معقول حد تک مختصر ثابت ہو سکتی ہے۔
غزہ کے خلاف اسرائیلی کارروائی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہو گی کہ اسرائیلی شہریوں کی ایک نامعلوم تعداد کو حماس کے عسکریت پسندوں نے قیدی بنا رکھا ہے۔ اسرائیلی فورسز کی اندھا دھند بمباری یقینی طور پر ان قیدیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دے گی۔
بھاری جانی نقصان کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل بھی غزہ میں اپنی دفاعی افواج کو تعینات کرنے سے گریزاں رہے گا۔ تاہم، اگر اسے اپنے مغوی شہریوں کے ٹھکانے کے بارے میں انٹیلی جنس حاصل ہوتی ہے تو وہ خصوصی دستے بھیج سکتا ہے۔
جوابی کارروائی میں اسرائیل کے لیے ایک اور خطرہ یہ ہے کہ غزہ پر بہت وحشیانہ حملہ مغربی رائے کو اس کے خلاف کر سکتا ہے۔ تاہم اب تک مغربی حکومتیں اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتی ہیں اور حماس کے لیے ان کا رویہ ہمدردانہ نہیں۔
اسرائیل کے لیے مجموعی طور پر سبق یہ ہے کہ اسے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے ایک ایسی پالیسی تیار کرنی ہوگی جس کے تحت وہ بنیادی حقوق اور روزگار کے حصول کے قابل ہوں۔
فی الوقت حالات یہ ہیں کہ اسرائیلی افواج اسرائیل اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں کو محاصرے میں رکھے ہوئے ہیں، فلسطینیوں کے لیے کوئی پالیسی وجود ہی نہیں رکھتی، کئی سالوں سے اسرائیلی حکومت کے لیے یہ بندوبست موزوں رہا۔ یہ عرب اور بین الاقوامی دباؤ کو نظر انداز کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ وہ دو ریاستی حل پر بات چیت کرے یا ایک ریاستی حل پر رضامندی حاصل کرے۔
حماس کے آپریشن کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اب یہ صورت حال مستقل نہیں رہ سکتی۔
کئی برسوں سے اسرائیل کے اندر یہ مفروضہ بڑھتا جا رہا تھا کہ فلسطین کا سوال ایک نو ایشو بن چکا ہے اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کرکے فلسطینی ریاست کے امکان کو ہی ختم کرنے کی پالسی پروان چڑھ رہی تھی۔
نیتن یاہو عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کر کے نئے مشرق وسطیٰ کے دعوے کر رہے تھے، مسئلہ فلسطیئن عالمی ایجنڈے سے غائب ہو چکا تھا،لیکن اب دنیا کو اس طرف دھیان دینا پڑے گا۔
اسرائیل کے لیے نفسیاتی جھٹکا
حماس کے حملے نے اسرائیل کو اس قدر نفسیاتی صدمہ پہنچایا ہے کہ اس کی بنیادوں پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے: اس کی فوج، اس کی انٹیلی جنس سروسز۔ ، اس کی حکومت اور اس کی لاکھوں فلسطینیوں کو کنٹرول کرنے کی اس کی صلاحیت۔
حماس کے حملے سے شروع ہونے والی جنگ جس میں زیادہ سے زیادہ 700 اسرائیلی جانیں لے چکی ہیں، خود اسرائیلی ریاست کی بقا کے لیے کوئی وجودی جدوجہد نہیں ہے، جیسا کہ 1948 کی جنگ یا 1973 کی یوم کپور جنگ دراصل اسرائیل کے وجود کی جنگ تھی۔لیکن اس حملے نے اسرائیلی شہریوں میں ایک مایوسی اور خوف بیدار کر دیا ہے۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر یوول شانی نے کہا، ’’اسرائیلی بنیادی طور پر لرز گئے ہیں۔ حماس پر غصہ ہے لیکن ساتھ ہی سیاسی اور عسکری قیادت پر بھی جس نے ایسا ہونے دیا۔ اسرائیل کی تشکیل کے 75 سال بعد حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری: اپنے شہریوں کی جانوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔”
جنگ جو ابھی شروع ہوئی ہے اس کا نتیجہ جو بھی ہو یہ بات اسرائیلی عوام کو ذہن نشین ہو گئی ہے کہ اسرائیل، بہر حال، 1948 میں ریاست کے قیام کے بعد سے اس تنازع سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔
اسرائیل کی دولت، سٹارٹ اپ کلچر اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی قبولیت اسرائیل کے بنیادی عدم استحکام کو چھپا نہیں سکتی۔
نیتن یاہو کا سیاسی صفایا
یوم کپور جنگ، جو اسرائیل کے لیے اتنا ہی گہرا نفسیاتی صدمہ تھا، نے فوری طور پر اسرائیلی سیاست کو نہیں پلٹایا تھا لیکن چار سال کے اندر، 1977 میں، لیبر حکومت جس نے اسرائیل کو اس کی بنیاد کے بعد سے چلایا تھا، کو شکست ہوئی، ایک دائیں بازو کی لیکود حکومت نے بھاری اکثریت سے اقتدار سنبھالا، اور اس کے بعد تقریباً پانچ دہائیوں میں لیبر پارٹی ماضی کی طرح بحال نہیں ہو پائی۔