ٹاپ سٹوریز
مغرب اور چین کے درمیان تصادم دنیا کی معیشت پر کیا اثر ڈالے گا؟
مغرب اور چین کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر جوابی حملے کے طور پر نافذ کئے گئے ٹریڈ ٹیرف سے لے کر ٹیک دشمنی اور جاسوسی کے الزامات تک، سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔
واشنگٹن اور بیجنگ کے طویل عرصے سے قائم سپلائی چینز کو توڑنے اور ایک دوسرے پر انحصار کم کرنے کی کوششوں میں ہیں جس کےعالمی منڈیوں کے لیے اثرات نمایاں ہیں۔
اس سے افراط زر بڑھ رہا ہے اور اسے قابو کرنے کے لیےسود کی شرح کو بلند رکھنا مجبوری بن گیا ہے۔ یہ کشیدگی مارکیٹس پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
مہنگائی
امریکی صدر جو بائیڈن اسٹریٹجک شعبوں جیسے الیکٹرک گاڑیوں اور سیمی کنڈکٹرز میں مینوفیکچرنگ کو وطن واپس لانے کے لیے پرعزم ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی چپ ساز کمپنی ٹی ایم سی، کچھ پیداوار جرمنی منتقل کر رہی ہے تاکہ کثیر القومی کمپنیوں کی سپلائی چین کو متنوع بنانے کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔
گولڈ مین شاس کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پیداوار کو واپس امریکا لانے سے افراط زر بڑھ سکتا ہیں، خاص طور پر اگر مغربی مینوفیکچرنگ اتنی تیزی سے ترقی نہیں کرتی ہے کہ گرتی ہوئی درآمدات کو پورا کر سکے۔
ناردرن ٹرسٹ میں ای ایم ای اے اور اے پی اے سی کے چیف انویسٹمنٹ اسٹریٹجسٹ واؤٹر سٹرکن بوم نے کہا، ہم نے کسی وجہ سے عالمگیریت تشکیل دی تھی، یہ موثر اور سستی تھی، اگر ہم اس عالمگیریت میں کچھ حصے کو ختم کر دیتے ہیں تو اس سے لاگت بڑھ جائے گی۔
طویل امریکی افراط زر کا مطلب یہ بھی ہے کہ ریٹس بھی بلند رہیں۔
ایک مضبوط ڈالر سے یورپ کے درآمدی ممالک میں مہنگائی بڑھ جائے گی اور درآمدی ممالک کو ڈالر میں ادائیگی کرنا ہوگی تو قیمت بھی زیادہ ہوگی۔
بہت سے مرکزی بینکوں کا ہدف 2% افراط زر ہے لیکن امریکی اور یورپی تاجروں کے طویل مدتی مہنگائی کے متعلق اندازے اس سے بلند ہیں۔
نئی دوستیاں
واشنگٹن "فرینڈشورنگ” پر زور دے رہا ہے – دوست ممالک کو چین کے متبادل کے طور پرسپلائی چین میں کردار دینے کا خیال۔
ہارورڈ بزنس اسکول کی لورا الفارو کی سربراہی میں ہونے والی تحقیق نے ویتنام اور میکسیکو کو اب تک امریکی سپلائی چین شفٹ کا بڑا فائدہ اٹھانے والے ملکوں کے طور پر شناخت کیا ہے۔
منگولیا نایاب معدنیات، ہائی ٹیک مصنوعات جیسے اسمارٹ فونز میں استعمال ہونے والے مواد کی کان کنی میں امریکی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔ فلپائن بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے لیے امریکا کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امونڈی انویسٹمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں جیو پولیٹکس کی سربراہ اینا روزن برگ نے کہا کہ چین-امریکہ تناؤ ایک "نیا زاویہ نگاہ” فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی ترقی کے امکانات کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
انڈیا کی جانب دوڑ
ہندوستان کو کم لاگت اور بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں چین کا مقابلہ کرنے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بڑی، نوجوان آبادی اور بڑھتا ہوا متوسط طبقہ بھی کثیر القومی کمپنیوں کے لیے کاروبار کے مواقع پیدا کرتا ہے جو چین میں کاروبار کم ہوتا دیکھ رہی ہیں۔
ہندوستانی اسٹاک میں اس سال 8% اضافہ ہوا ہے اور بانڈ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے بہاؤ کے امکانات کو دیکھتے ہوئے جے پی مورگن نے اگلے سال اہم سرکاری بانڈ انڈیکس میں ہندوستان کو شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
ایسٹ مینیجر جے سٹرن کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر کرسٹوفر راسبچ نے کہا، ہندوستان ایک بہت بڑا موقع ہے۔ جن عالمی کمپنیوں میں ہم نے سرمایہ کاری کی ہے وہ اس پر کام کر رہی ہیں۔
ہندوستان کے مرکزی بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ اس مالی سال میں معیشت 6.5 فیصد بڑھے گی، جبکہ چین میں اس سال تقریباً 5 فیصد شرح ترقی متوقع ہے۔
بارکلیز کا خیال ہے کہ اگر ہندوستان اگلے پانچ سالوں میں اپنی سالانہ اقتصادی ترقی کو 8 فیصد کے قریب بڑھاتا ہے، تو یہ عالمی ترقی میں سب سے بڑا شراکت دار بننے کی پوزیشن میں ہوگا۔
سیمی کنڈکٹرز سے ملبوسات تک
چین-مغرب تصادم کے نتیجے میں ہارنے اور جیتنے والے دونوں ہیں۔
یورپی یونین اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا چینی الیکٹرک گاڑیوں کی درآمدات پر تعزیری محصولات عائد کیے جائیں، یورپی یونین کا کہنا ہے کہ چین کی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کو ریاست کی جانب سے ضرورت سے زیادہ سبسڈی سے فائدہ ہوتا ہے۔
مقامی سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کے لیے امریکی سبسڈیز نے انٹیل کے حصص کو فروغ دیا ہے۔ لیکن بڑے امریکی ٹیک اسٹاکس اور عالمی حصص کو چین کی جوابی کارروائی کا ڈر ہے۔
ان اطلاعات پر کہ بیجنگ حکومتی کارکنوں کے آئی فون استعمال کرنے پر پابندی لگا دے گا، ایپل کے سٹاک میں ستمبر کے اوائل میں دو دنوں کے دوران 6 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی۔
چین لگژری کی اشیاء کا سب سے بڑا خریدار ہے، مغربی فیشن ہاؤسز بھی سیاست کے اس جال میں پھنس گئے ہیں۔ چین کے کرپشنکے نگران ادارے نے مغربی اشرافیہ کی خوشنودی کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ چینی بینکوں نے عملے سے کہا ہے کہ وہ کام پر یورپی لگژری اشیاء نہ پہنیں۔
بارکلیز کے تجزیہ کاروں کیرول میڈجو اور وینڈی لیو نے ایک نوٹ میں کہا، چین کی حکومت اور انسداد کرپشن کے اداروں نے زیادہ متمول (چینی) صارفین کے اخراجات پر نظررکھنا شروع کر دی ہے
چین نے 2023 کے اوائل میں جب کووڈ 19 کی پابندیوں کو نرم کیا تو لگژری سیکٹر کے شیئرز میں نمایاں اضافہ ہوا، مغرب کے ساتھ تناؤ اور چین کے اندرونی معاشی دباؤ کے بعد یہ شیئرز گر گئے اور سال کی تیسرے کوارٹر میں یورپی لگژری سٹاک 16 فیصد تک نیچے آئے۔
گرتی ہوئی معیشت اور پراپرٹی مارکیٹ میں افراتفری کا مطلب ہے کہ چین میں سرمایہ کاری کا معاملہ سیاست سے بالاتر ہے۔
چین کے عالمی اسٹاک کی کم ہوتی کارکردگی پر سرمایہ کار اس بات پر منقسم ہیں کہ اس مارکیٹ میں کیسے کیا جائے۔