تازہ ترین
ایران میں نئی سیاسی کشمکش کا آغاز، نتیجہ کیا ہوگا؟
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اتوار کو شمال مغربی ایران کے ایک دور افتادہ علاقے میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں انتقال کر گئے۔
ابراہیم رئیسی کی موت نے ایران میں ایک بڑے سیاسی بحران کو جنم دیا ہے، ابراہیم رئیسی کو 2021 میں صدر بنا کر ایران کی مذہبی اشرافیہ نے بہت دور کی پلاننگ کی تھی جو ان کی موت کے بعد دھری رہ گئی ہے،رئیسی کو صدر بنا کر مذہبی اشرافیہ نے نہ صرف اعتدال پسندوں کو اقتدار سے باہر کیا تھا بلکہ سپریم لیڈر کے جانشین کے لیے بھی رئیسی کو غیرعلانیہ طور پر آگے بڑھایا گیا تھا۔
رئیسی کو صدر بنانے کے لیے شوریٰ نگہبان نے اصلاح پسندوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کی کھلے عام کارروائی کی، اصلاح پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیا گیا اوررئیسی کے مقابل کوئی قابل ذکر امیدوار ہی نہ تھا۔
اب رئیسی کی موت کے بعد ایران میں نئے صدر اور اس کے ساتھ مستقبل کے سپریم لیڈر کے لیے نئی سیاسی کشمکش شروع ہوگئی ہے۔ نئے صدر کے لیے شوریٰ نگہبان ایک بار پھر پسندیدہ امیدوار کی راہ کے کانٹے چن سکتی ہے لیکن ابھی تو یہ مسئلہ ہے کہ رئیسی جیسا قابل قبول امیدوار تلاش کیا جائے، آئین کے تحت 50 دن میں نئے الیکشن ہونا ہیں اور یوں مذہبی سٹیبلشمنٹ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، لیکن اس بار مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل کے سپریم لیڈر اور رئیسی کے جانشین صدر کے لیے سخت گیر حلقے آپس میں الجھ سکتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی کی مستقبل کے سپریم لیڈر کے لیےغیرعلانیہ نامزدگی کے بعد مستقبل کے سپریم لیڈر کے لیے بحث کا دروازہ بند ہوگیا تھا لیکن اب پھر یہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ رئیسی کے سامنے لائے جانے سے پہلے خامنہ ای کے صاحبزادے مجتبیٰ خامنہ ای کو ان کے جانشین کے لیے سرکردہ امیدوار سمجھا جاتا رہا ہے۔ ایک اور امکان علیرضا عرفی ہے، جو ماہرین کی اسمبلی کے ایک ممتاز رکن ہیں۔
رئیسی کے سسر آیت اللہ علم الہدیٰ بھی اب امیدواروں کی فہرست میں ہیں۔ علم الہدیٰ مشرقی شہر مشہد کی ایک طاقتور شخصیت ہیں اور صوبہ خراسان رضوی میں سپریم لیڈر کے نمائندے ہیں۔
ایک اور طاقتور شخصیت احمد خاتمی ہیں جو ماہرین کی اسمبلی کے رکن ہیں۔ رئیسی کی طرح، خاتمی ایک سخت گیر شخص ہیں جنہیں یورپی یونین کی پابندیوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔
پارلیمنٹ کے سپیکر، عدلیہ کے سربراہ اور نائب صدر پر مشتمل ایک کونسل زیادہ سے زیادہ 50 دنوں کے اندر نئے صدارتی انتخاب کا اہتمام کرنے کی پابند ہے۔
امکان ہے کہ مخبر، جنہوں نے ایران میں اہم مالیاتی تنظیمیں چلائی ہیں، محمد باقر قالیباف کے ساتھ صدارت کے لیے انتخاب لڑیں گے، جو پارلیمان کے موجودہ اسپیکر ہیں۔
قالیباف، تہران کے سابق میئر اور اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کی فضائیہ کے سربراہ 2005 میں صدارت کے لیے ناکام رہے، جب وہ محمود احمدی نژاد سے ہار گئے تھے۔ قالیباف کو نسبتاً اعتدال پسند سمجھا جاتا ہے لیکن اس بار ان کے جیتنے کے امکانات واضح نہیں ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ کا اسپیکر بنائے جانے کا بھی امکان ہے۔
صدارتی انتخابات غیر مسابقتی ہونے کا امکان ہے۔ نظام کچھ اصلاح پسند شخصیات کو متعارف کرانے کی کوشش کر سکتا ہے تاکہ انتخابات کو ان ایرانیوں کے لیے زیادہ پرکشش بنایا جائے جو اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ ایک امکان اسحاق جہانگیری ہے، جو حسن روحانی کے ماتحت نائب صدر تھے۔
جہانگیری نے یہ کہتے ہوئے خود کو روحانی سے دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ روحانی کے دوسرے دور (2017-2021) کے دوران ان کا اقتدار چھین لیا گیا تھا۔ اس سے جہانگیری کے گارڈین کونسل کی جانچ سے بچنے کا موقع بڑھ سکتا ہے۔ تاہم، جہانگیری عام ایرانیوں میں زیادہ مقبول نہیں ہیں۔
انتخابات سے پہلے دستیاب مختصر وقت کے پیش نظر، کونسل کے پاس امیدواروں کی جانچ کے لیے بہت کم وقت ہے۔ اس لیے، امکان ہے کہ ایسے مانوس نام سامنے آئیں گے، جو پہلے جانچ کے عمل سے گزر چکے ہیں۔
کیا رئیسی کی موت اور نئے صدر سے ایرانی عوام کی صورتحال ڈرامائی طور پر بدل جائے گی؟ مختصر جواب نہیں ہے۔ ملکی اور خارجہ پالیسیوں میں مروجہ سخت گیر نظریے کو جاری رکھنے کا امکان ہے۔
ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت بھی اسرار بھری ہے،اس حادثے پر ایرانی حکومت اور میڈیا کا پہلا ردعمل اور بعد کی رپورٹنگ بھی تضادات سے بھرپور ہے، ایران میں تمام میڈیا سرکاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہر میڈیا کسی نہ کسی ریاستی برانچ کا ترجمان ہے، میڈیا نے سب سے پہلے اصرار کیا کہ خطرے کی کوئی وجہ نہیں ہے، صدر کے ہیلی کاپٹر نے "ہارڈ لینڈنگ” کی تھی۔
کئی ایرانی خبر رساں ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ وہ کار کے ذریعے تبریز کے لیے روانہ ہوئے۔ اگرچہ، وہ رپورٹس بعد میں حذف کر دی گئی تھیں، اور سرکاری ٹیلی ویژن نے صدر کے لیے دعائیں نشر کرنا شروع کر دیں۔ 20 مئی کی صبح، سرکاری میڈیا نے تصدیق کی کہ مسٹر رئیسی، وزیر خارجہ، حسین امیرعبداللہیان کے ساتھ، جو اسی ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔
رئیسی کا ہیلی کاپٹر کیوں گر کر تباہ ہوا؟ بہت کچھ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اب تک کی سرکاری کہانی خراب موسم کی ہے۔ پرواز کے دوران بارش اور دھند چھائی ہوئی تھی، جس میں حدنگاہ صرف چند میٹر بتائی گئی تھی۔ حالات اتنے خراب تھے کہ امدادی کارکن صدر کی تلاش کے لیے نہیں جا سکے، اور ڈرون بھی جائے حادثہ کو تلاش نہیں کر سکے۔ ہلال احمر نے تلاش ٹیمیں پیدل بھیجنے کا سہارا لیا۔
رئیسی کی موت میں موسم اور پہاڑی و جنگلی علاقہ ’مجرم‘ ہو سکتا ہے لیکن بہت سے ایرانیوں نے وضاحتوں کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع کر دی ہیں۔ رئیسی کے اندرونی دشمنوں کی ایک لمبی فہرست ہے، رشتہ دار اعتدال پسندوں سے لے کر ان کے ساتھی قدامت پسندوں تک جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک نااہل صدر رہے ہیں۔ یہ سوچنا غیر معقول نہیں ہے کہ کیا گھریلو دشمنوں نے انہیں قتل کرنے کی سازش کی تھی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ ایرانیوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ کیا اس حادثے میں اسرائیل کا کوئی کردار تھا۔ دیرینہ دشمنوں کے درمیان گزشتہ ماہ آپس میں ٹکراؤ اس وقت ہوا جب اسرائیل نے دمشق میں ایک ایرانی جنرل کو قتل کر دیا اور ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل کو نشانہ بنانے کے لیے 300 سے زیادہ میزائل اور ڈرونز داغے۔ موساد، اسرائیل کی جاسوسی سروس، ایران سمیت اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، جہاں اس نے ممتاز ایٹمی سائنسدانوں کو ہلاک کیا ہے۔
لیکن اسرائیل کے ملوث ہونے پر شک کرنے کی مضبوط وجوہات ہیں۔ اسرائیل کبھی بھی کسی سربراہ مملکت کو قتل کرنے تک نہیں گیا، ایسا کوئی بھی قدم ایران کو شدید ردعمل کی دعوت دیتا اور جنگ کا واضح خطرہ ہوتا،اسرائیل کے لیے رئیسی کو قتل کرنے کے لیے اس طرح کے نتائج کا خطرہ مول لینا بے وقوفی ہو گی، جوانتہائی غیر مقبول سیاست دان ہیں،اور وہ ایران کے بہت سے اہم پالیسی فیصلوں میں حتمی رائے نہیں دے سکتے۔
رئیسی ایران کی مذہبی اشرافیہ کے لیے ایک مثالی متفقہ امیدوار تھے۔ کوئی بھی ان کی سخت گیر اسناد پر سوال نہیں اٹھا سکتا تھا، لیکن ان کے پاس اپنی طاقت کی کمی تھی۔ مذہبی قدامت پسند انہیں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی امید رکھتے تھے۔ اسلامی انقلابی گارڈ کور (irgc) بھی ان کے ساتھ تھے۔ایسا لگتا ہے کہ irgc سیاسی عروج پر ہے۔
مجتبیٰ خامنہ ای کا ایران کا سپریم لیڈر بننا انقلابی حکومت کے لیے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرے گا جس نے موروثی بادشاہت کا خاتمہ کرکے انقلاب کی بنیاد رکھی تھی، اگر مجتبیٰ خامنہ ای مستقبل کے سپریم لیڈر بنے تو ان کا انحصار اسلامی انقلابی گارڈ کور پر ہوگا،اس کے نتیجے میں، حکومت کے اندر irgc کے کردار کو تقویت مل سکتی ہے۔ ایران ایک ہائبرڈ فوجی اور علما کی حکومت سے زیادہ فوجی حکومت بننے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب اندرون ملک کم مذہبی قدامت پرستی لیکن بیرون ملک اس سے بھی زیادہ دشمنی ہو سکتی ہے۔
کچھ سیاستدان حیران ہوں گے کہ کیا دوسرے سیاستدانوں نے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ہیلی کاپٹر کے حادثے کا منصوبہ بنایا۔ حکومت کے لیے آگے اعصاب شکن دن ہوں گے۔
رئیسی، جنہیں ایک گروپ کی حمایت حاصل تھی جو انہیں سپریم لیڈر بنتا دیکھنا چاہتا تھا،اب اس گروپ کے پاس کوئی امیدوار نہیں ہے، اور اس سے دوسرے دھڑوں یا دیگر شخصیات کے لیے سنجیدہ دعویدار کے طور پر سامنے آنے کا دروازہ کھل گیا ہے۔
پاسداران انقلاب اور قم کے بااثر علما سمیت طاقتور شخصیات سے اب توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس عمل کی تشکیل کے لیے کوششیں تیز کریں گے جس کے ذریعے اگلے سپریم لیڈر کا انتخاب کیا جائے گا۔