کالم

آئینی بحران پیدا کس نے کیا؟

Published

on

نگران حکومت کی تشکیل مکمل ہونے کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ انتخابات 90 دنوں میں کرانا ممکن نہیں کیونکہ نئی حلقہ بندیوں میں وقت لگے گا اور اسی وجہ سے انتخابات اپنے مقررہ وقت پر نہیں ہوسکیں گے۔ الیکشن کمیشن کے اس اعلان نے اُن خدشات کی توثیق کر دی جن کا اظہار قومی اسمبلی کی تحلیل سے پہلے کیا جا رہا تھا۔

آئین کے تحت اگر اسمبلی اپنی معیاد مکمل کرکے ختم ہوتی ہے تو پھر 60 دنوں میں انتخابات ہوں گے اوروقت سے پہلے تحلیل کی صورت میں 90 دن مکمل ہونے سے پہلے انتخابات کرانا ایک آئینی ذمہ داری ہےْ

جمہوری دورمیں ملکی تاریخ میں دو مرتبہ ہی ایسا ہوا ہے کہ عام انتخابات کسی ناگہانی واقعہ یا صورت حال پرموخر کیے گئے۔ پہلے 1988 کی اسمبلی چھ اگست کو تحلیل ہوئی، الیکشن 60 روز میں ہونا تھے لیکن یہ انتخابات نومبر میں جا کر ہوئے اور اس طرح 2008 میں انتخابات جنوری میں ہونے تھے لیکن بینظیر بھٹو کی ہلاکت کی وجہ سے فروری میں ہوئے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات وقت پر نہ کرانے کیلئے ایک آئینی جواز پیش کیا  ہے. اس طرح سے دو آئینی ذمہ داری ایک دوسرے کیلئے مدمقابل آگئیں اور اب آئینی نکتہ تصفیہ طلب ہے کہ کون سی آئینی ذمہ داری پہلے پوری کرنا ضروری ہے اور کس کو نظر انداز کیا جائے؟  کیونکہ ایک آئینی تقاضا پورا کیا جائے تو دوسرا نظر انداز ہو جاتا ہے۔ اگر حلقہ بندیوں کے عمل کو مکمل کیے بغیر انتخابات کرائے جاتے ہیں تو یہ بھی ایک قانونی سقم ہے اور حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو پھر انتخابات وقت پر نہیں ہوتے تو یہ بھی آئینی قباحت ہوگی، اب سوال یہ ہی ہے کہ آئینی پیچیدگی سے کسے بچا جائے؟

مردم شماری کی رپورٹ لگ بھگ ایک برس پہلے شائع ہوگئی تھی لیکن اُس وقت حلقہ بندیوں پر توجہ نہیں دی گئی اسی وجہ سے انتخابات وقت پر کرانے میں مشکلات ہو رہی ہیں۔

تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں ہی انتخابات بر وقت کرانے کی حامی ہیں اور دونوں جماعتوں کی طرف سے اُن کا موقف بھی سامنے آگیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی  نے تو انتخابات نوے دنوں میں  کرانے کیلئے نگران وزیر اعظم کو خط بھی لکھا اور یہ نشاندہی کی کہ حلقہ بندیوں کو جواز بنا کر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر نہیں کی جاسکتی۔ اُدھر چوٹی کے وکلا کی تنظیم  سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر بروقت انتخابات نہ کرانے پر ملک کی اعلیٰ عدالت یعنی سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور ایک درخواست دائر کی ہے جس میں الیکشن کمیشن کو بروقت انتخابات کرانے کا پابند کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

اس سال کے شروع میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے پر نوے دن میں انتخابات نہیں ہوسکے اور سپریم کورٹ کے روبرو انتخابات نہ کرانے کیلئے مختلف جواز بھی پیش کیے گئے۔ پہلا معاملہ دو صوبائی اسمبلیوں کی حد تک تھا لیکن اب یہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی بات ہے۔ انتخابات میں تاخیرسے آئینی پیچیدگیاں میں اضافہ ہونے  خدشہ ہے کیونکہ یہ اتنی سادہ بات نہیں۔ عام انتخابات میں تاخیر سے صدر مملکت اور سینیٹ کے نئے ارکان کا انتخاب کھٹائی میں پڑ جائے گا جو کئی آئینی مسائل کا پیش خیمہ ہوگا اور ان قباحتوں کا آئینی حل آسان نہیں ہوگا. 9 ستمبر کو صدر مملکت عارف علوی کے منصب کی معیاد مکمل ہو رہی ہے اور دوسری طرف مارچ 2024 میں سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی چھ برس کی مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان کا انتخابات ایک آئینی ذمہ داری ہے کیونکہ سینٹ وفاق کی علامات ہے۔

یہاں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ بروقت مردم شماری کی بنیاد  پر حلقہ بندیاں کا عمل کیوں نہیں کیا۔ اس آئینی ذمہ داری سے غفلت کا ذمہ دارکون ہے؟ اگر یہ آئینی ذمہ داری بروقت نبھائی  جاتی تو انتخابات بروقت کرانے کا آئینی تقاضا پامال ہونے کا کوئی اندیشہ سر نہ اٹھاتا۔اس لیے ضروری ہے کہ اُن سے جانچ پڑتال کی جائے جو وقت پر حلقہ بندیوں کے آئینی تقاضے کو پورا نہیں کرسکے یا خاموش رہے اور اب انتخابات میں تاخیر کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا۔

ایک یہ بھی عام خیال قانونی اور سیاسی حلقوں میں ظاہر کیا جا رہا ہے کہ  نئی حلقہ بندیوں کو انتخابات کے انعقاد کی آئینی جواز پر ترجیح نہیں دی جاسکتی اور حلقہ بندیوں کے معاملے کو وقتی طور ٹالا جاسکتا ہے اور یہ رائے دینے والوں کا موقف ہے کئی آئینی تقاضوں پر برسوں عمل  نہیں کیا جاتا اور حلقہ بندیوں کو جواز بنا کر انتخابات میں تاخیر نہیں کی جاسکتی۔

حلقہ بندیاں زیادہ ضروری ہیں یا پھر عام انتخابات کا انعقاد بروقت ہونے زیادہ اہم ہے؟کس کو کس پر ترجیح دی جاسکتی ہے؟ اس قانونی نکتہ کا جواب اب کسی کے پاس ہے تو وہ سپریم کورٹ ہے جو اس گتھی کو سلجھا سکتی ہے. سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ ہے جو  آئینی  پیچیدگیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیکر اس اپنی تشریح کرتا ہے اور آئینی بھول بھلیوں میں سے راستہ تلاش کرتا ہے۔

عام رائے یہ ہی تجویز کرتی ہے کہ کسی بھی گھمبیر آئینی مسئلہ سے بچنے کیلئے انتخابات کا بروقت انتخاب ضروری ہے کیونکہ بروقت انتخابات نہ ہونے سے صرف اسمبلیوں کے انتخابات تاخیر کا شکار نہیں ہونگے بلکہ صدر مملکت اور سینیٹ کے ارکان کے انتخاب کا معاملہ کا بھی التوا میں چلا جائے گا جو  کسی صورت بھی جمہوریت اور آئینی اداروں کیلئے اچھا شگون نہیں ہوسکتا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version