ٹاپ سٹوریز
پنجاب پولیس کی طرح تھانہ کلچر بہتر کیوں نہیں کرسکتے؟ سندھ ہائیکورٹ کراچی پولیس چیف پر برہم
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی پولیس چیف کی شدید سرزنش کی ہے اور ریمارکس دئیے کہ سندھ پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث قاتل بھی چھوٹ جاتا ہے چرسی بھی بری ہورہے ہیں، پنجاب پولیس کی طرح تھانہ کلچرل کو بہتر کیوں نہیں کرسکتے؟
عدالت نے مختلف جرائم ملزمان کی طرف ضمانتوں کے کیسز میں پولیس کی ناقص تفتیش پر کراچی پولیس چیف کو طلب کیا تھا۔ایڈیشنل ائی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو عدالت میں پیش ہوئے،
جسٹس امجد علی سہتو نے پولیس کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث قاتل بھی چھوٹ جاتا ہے چرسی بھی بری ہورہے ہیں، ایک ایک آپ کو فائل دکھاؤں تو اندازہ ہوگا پولیس کر کیا رہی ہے؟ پنجاب پولیس کی طرح تھانہ کلچرل کو بہتر کیوں نہیں کرسکتے؟
جسٹس امجد علی سہتو نے ریئمارکس دئیے کہ تفتیش کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک سسٹم بنائیں، تفتیش کے لیے بجٹ مختص کریں اور تھانیدار اس بجٹ کا جوابدہ ہونا چاہیے، تفتیشی افسر کو تفتیش کا پیسہ نہیں ملتا ، اصل تفتیش کا پیسہ کھانے والا بندہ سو کر 12 بجے اٹھتا ہے، تفتیشی افسران کے پاس تفتیش کے لیے پیسے تک نہیں ہوتے، یہ کڑوا سچ ہے آپ کو سننا پڑے گا،بہت سارے کیسز میں شوہر اپنی بیوی کو مار دیتا ہے، کہا جاتا یے بیوی نے خود کو آگ لگا دی۔
ناقص تفتیش پر جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ لٹکی لاش کو اتارے وقت پولیس لاش کی تصویر تک لینے لی زحمت نہیں کرتی،عدالت پر یقین کریں ہم یہ سب باتیں کرنا نہیں چاہتے تھے ،ہر کیس پولیس کی کارکردگی کا عکس پیش کررہا ہے،ہم چاہتے ہیں کراچی سے کشمور تک پولیس کا معیاری انفراسٹرکچر ہونا چاہئے،ایک تفتیشی افسران نااہل رکھے ہوئے ہیں اوپر سے انہیں فنڈز نہیں ملتے، تفتیشی افسران عدالت آکر بتاتے ہیں انہیں پیسے نہیں ملے، جب فنڈز نہیں ملیں گے تفتیش کیا کریں گے؟۔
جسٹس امجد علی سہتو نے اسمبلی تحلیل ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب تو آپ آپ آزاد ہوگئے ہیں اب تو پولیس کا سسٹم ٹھیک کریں، تفتیش کا بجٹ براہ راست تھانے کو دیں تھانہ براہ راست جوابدہ ہوگا،ناقص تفتیش پر ایس ایس انوسٹی گیشنز کو ہٹائیں کچھ تو پولیس کا نظام بہتر کریں۔
جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ملزمان کو سزادیں مگر ناقص تفتیش کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں، کوئی ملزم پکڑا جاتا ہے تو بڑی بڑی پریس کانفرنس کرکے کامیابی کا دعویٰ کیا جاتا ہے،کیس فائل نامکمل ہوتی ہے تفتیش ہی ٹھیک نہیں ہوتی تو ملزمان بری ہوجاتے ہیں،جب ملزمان بری ہوجاتے ہیں پولیس سارا الزام عدالت پر لگا دیتی ہے، ارے بابا پولیس پہلے اپنا سسٹم تو ٹھیک کرے۔
جسٹس امجد ستہو نے کہا کہ کرائم سین محفوظ بنانے کے لیے طریقہ کار ہونا چاہئے،جرائم دیکھیں بڑھتے جارہے ہیں، کنٹرول کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں؟
ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو نے بتایا کہ پولیس کے پاس کرائم سین یونٹ موجود ہیں، ہر ضلع کا ایس ایس پی کرائم یونٹ کو ہیڈ کرتا ہے، تفتیشی افسر کو ٹریننگ دے رہے ہیں،شہر میں سالانہ 80 ہزار جرائم رپورٹ ہوتے ہیں، تفتیش بہتر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جسٹس امجد سہتو نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے کیسز میں پولیس کرائم سین محفوظ نہیں بناتی۔ جس پر کراچی پولیس چیف نے پولیس کا تفتیشی نظام بہتر بنانے کی یقین دہانی کرائی۔