تازہ ترین
پُرامن اصلاحات کیوں کارآمد نہیں ہو سکیں ؟
قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں بارے سپریم کورٹ کے تیرہ میں سے آٹھ ججز کے تازہ فیصلہ نے آئین و قانون سے ماوراء اپنے فہم و ادراک کو معیار بنا کر طبع زاد تشریحات کے ذریعے جہاں دستورکی بے ثباتی کو نمایاں کیا، وہاں یہی فیصلہ نظام عدل میں پائی جانے والی ذہنی تقسیم کو گہرا کرکے جاری سیاسی بحران کو بڑھا گیا گویا صرف اسی ایک فیصلہ نے سیاست کے سارے پرسپشن کو بدل دیا۔
یوں تو عدلیہ،حکومت ہی کی ایک ایسی شاخ کے طور پہ کام کرتی ہے جو مخصوص حالات میں قوانین کے اطلاق کے ذریعے مستند فیصلوں کے مطابق تنازعات کو نمٹانے کے علاوہ امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لئے درکار جزا و سزا کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے لیکن یہاں چونکہ نوآبادیاتی دور میں ایسا ملتبس قانونی نظام متعارف کرایا گیا، جو قرون وسطیٰ کے عدالتی نظاموں سے متاثر مذہبی اور ثقافتی طریقوں پر مبنی ہے، اس میں سیاسی فقہ وہ قانونی نظریہ ہے جس سے کچھ عدالتی فیصلوں کو سیاسی عمل کے حصہ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے ججز روز اول سے سیاسی اداکار کے طور پر کام کرتے رہے۔
بلاشبہ عدلیہ ہی کو اکثر انتظامی مقدمات، افراد، گروہوں یا قانونی اور حکومتی اداروں کے درمیان قوانین کے اطلاق یا سرکاری پالیسیوں کے نفاذ سے جڑے تنازعات کو قانون کے مطابق حل کرنا ہوتا ہے مگر زیادہ تر قانونی نظاموں میں ججز کے لئے ریاستی خودمختاری کے اصول کو پیش نظر رکھنا لازم ہوتا ہے، جس کے تحت حکومتوں پر غیر ریاستی قانونی چارہ جوئی کے ذریعے ان کی رضامندی کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، یہی اصول شہریوں کے لئے حکومتی اقدامات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے حق کو محدود کرتا تھا لیکن جب سے بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں ڈیفکٹو کی جانب سے شہریوں کے ساتھ من مانی پہ مبنی ناروا سلوک، قوانین و ضوابط کے غلط اطلاق جس سے فرد کی بنیادی آزادی کا حق متاثر ہو، کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے حق کو تسلیم کیا گیا ،اسی دن سے حکومتوں کے خلاف سیاسی مقدمات کی راہ ہموار ہو گئی چنانچہ عدالتوں کے ذریعے قانون سازی اور پالیسی سازی اس وقت سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہے جب طاقتور سپریم کورٹس قوانین یا بڑے سرکاری اقدامات کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے عدالتی نظرثانی کے اختیار کا فقہی استعمال کرتی ہیں۔
اس طرح وہ بظاہر اپنے دائرہ عمل سے باہر نکل کر منتظمین کے طور پر برتاؤ کرتی دکھائی دیتی ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے اس پُر زور اور پیچیدہ عہد میں عدالتی فعالیت کو سیاسی محرکات پہ پردہ ڈالنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا ۔ علیٰ ہذالقیاس،ہماری پون صدی کی عدالتی تاریخ سے جڑے سانحات کے پیش نظر یہاں بڑے پیمانے کی جوڈیشل ریفارمز کی ضرورت تھی۔
اسی تناظر میں اپنے عہد کے تقاضوں کا درست ادراک کرتے ہوئے ماضی قریب میں نوازشریف نے منظم اور پُرامن اصلاحات کی تجویز پیش کی تھی لیکن پالیسیوں میں تسلسل اور اصلاحات کی وکالت کرنے والے آصف علی زرداری نے 2016 میں ایک مہلک ڈیل کے ذریعے اسے ناکام بنا دیا چنانچہ اب پی ٹی آئی سمیت علاقائی و لسانی تنظمیں اور نسل پرست گروہ فرسودہ اور غیرلچکدار اداروں میں اصلاحات کے لئے تشدد کی ضرورت کو واضح کرنے میں پُر جوش دکھائی دیتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ مملکت کی تخلیق کے ساتھ ہی ہر کج کلاہ نے اصلاحات کا ناقوس بجا کر ہر شعبہ میں من مانی ترامیم کے ذریعے منظم ریاستی ڈھانچے کو تہہ و بالا کر ڈالا، نتیجہ میں سیاسی، انتظامی اور سماجی عوامل بتدریج شکست و ریخت کی نذر ہوتے گئے،فوجی آمروں کی بقاء عالمی طاقتوں کے مفادات کے تابع جنگی مہمات سے مشروط تھی لہذا آمروں کو اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے قوم کی اجتماعی دانش(پارلیمنٹ )کی بجائے عدالتی توثیق کا سہارا لینا پڑا تو ہمارا عدالتی نظام بھی رفتہ رفتہ ریاستی مقتدرہ کا ٹول بنتا گیا، اب اس دائمی گٹھ جوڑ کے مضمرات ریاستی ڈھانچہ کی جزیات تک اتر چکے ہیں لیکن مرور ایام کے ساتھ آج جب ججز کو اتفاقاً خوف سے آزادی ملی تو وہ قانونی تعزیر کے ذریعے سیاسی آزادیوں کی تحدید اور قانونی تشدد کے ذریعے سیاسی تنازعات نمٹانے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں، حالانکہ اس نظم و ضبط کا بیشتر حصہ، جو انسانیت پہ حاوی ہے،قانون کا رہین منت نہیں، اس کا سرچشمہ زندگی اجتماعی اصول اور انسان کی فطرت ہے۔
آج ہمیں جو آزیادیاں میسر ہیں وہ چار ہزار سالوں پہ محیط پیچیدہ انسانی جدوجہد کا ماحصل ہیں۔جب انسان کو محسوس کرنے اور کہنے کی آزادی ملی تو اس نے بقاء باہمی کے لئے سماجی اور سیاسی ادارے بنا کر معاشرے کی صورت گری کی ۔ ارسطو نے کہا تھا کہ ”سیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے درمیان مفاہمت کا آرٹ ہے“ تاہم جو لوگ عوام کے لئے دام بچھاتے ہیں اور اس دام کو ریاست کا نام دیتے ہیں وہ خود بھی فرضی حقائق کی بھول بھلیوں کے اِسی جال میں پھنس جاتے ہیں گویا ہماری آزادی قانون نہیں چھین رہا بلکہ ہمارے اذہان کا بے ضرر تساہل اس کا ذمہ دار ہے ۔
بہرحال، آج جب ہماری ریاست ایک بڑی پالسی شفٹ اور جامع اصلاحات کے لئے ”عزم استحکام“ کے نام سے ایک بڑی سرجری کی تیاریوں میں مصروف تھی تو عدالتی فعالیت نے ایک بار پھر پورے معاشرتی وجود کو وقف اضطراب کر دیا،اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی شعور پُرامن اصلاحات کے تصور کی حمایت نہیں کر سکا، ہمیں بلآخر ایک ایسے تصادم کی طرف جانا پڑے گا جو عدلیہ اور انتظامیہ کے علاوہ مقتدرہ کو بھی اجاڑ سکتا ہے۔
اصلاح سے مراد، غلطی، بدعنوانی اور غیر تسلی بخش امور میں بہتری لانا ہے لیکن یہاں ہر ادارہ اپنے سوا دوسروں کی اصلاح پہ مامور ہے، اس لئے اصلاحات کا نتیجہ نت نئی خرابیوں کی صورت میں سامنے آیا۔اگر پلٹ کر دیکھیں تو ہمیں ابتداءمیں سب کچھ ٹھیک نظر آئے گا ، موجودہ بحران، لاینحل مسائل اور عمیق بگاڑ اصلاحات کی خاطر کی گئی دست درازیوں کا ماحصل ہیں، خود کردہ را علاج نیست ،کے مصداق جونہی ہم کسی بھی اصلاح کی طرف قدم بڑھائیں تو سینکڑوں رکاوٹیں بھڑک کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔
علیٰ ہذالقیاس ،یورپ میں پارلیمانی، سماجی اور مذہبی اصلاحات کے نعروں کی گونج 18ویں صدی کی سیاسی ٹوٹ پھوٹ کے آخر میں سنائی دیتی ہے،اُن اصلاحات کا بنیادی مقصد انسانی ارتقاء کے لئے سرکاری اسکولوں کو قیام،غلامی کا خاتمہ، قیدیوں، پاگلوں اور غریبوں سے بہتر سلوک اور خواتین کے لیے مساوی حقوق دلانا تھا۔تاہم سیاسی اصلاحات بہترین انداز میں اس بات کی عکاس تھیں کہ بدعنوان یا جابرانہ سیاسی اداروں کا خاتمہ کرکے حکومتی خدمات کو بہتر بنا کر معاشرے کو ترقی کیسے دی جائے۔
19ویں صدی کے دوران شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی قیادت میں انہی مطالبات سے مزین جو سماجی اصلاحی تحریکیں پروان چڑھیں ان میں مختلف مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی جیسے غلامی کا خاتمہ، مزدور کی اجرت اور کام کے وقت کا تعین ،مفت تعلیم، خواتین کے حقوق اور جیلوں میں اصلاحات شامل تھیں۔
مغربی اصلاح کاروں کے پاس معاشرے کو تبدیل کرنے کی خواہش کی مختلف وجوہات تھیں ، کچھ لوگوں نے سماجی خرابی، تشدد، اور وسیع ہوتی ہوئی طبقاتی تقسیم سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کو دور کرنے کی امید ظاہر کی۔مذہبی تنظیموں نے اصلاحات کی تحریکوں کو زمین پر ایک خدا پرست معاشرے کے مذہبی تصور کا محرک بنایا۔انیسویں صدی کی تین اہم سماجی اصلاحی تحریکوں میں غلامی کا خاتمہ اور خواتین کے حقوق باہم جڑے ہوئے تھے۔کچھ ثقافتی اصلاحی تحریکیں ایسی تبدیلی کی وکالت کرتی ہیں جو قدیم اقدار کو محفوظ بنانے کے ساتھ ان کے نفاذ کے بہتر ذرائع فراہم کرنے کی نوید سناتی تھیں۔
دوسری طرف باغیانہ مسرت سے سرشار انقلابی تحریکوں نے خود کو پرانی اقدار کے متبادل کے طور پہ پیش کیا، ہیگل کی جدلیات اور کارل مارکس کی معاشی مساوات کی گونج نے قرعہ ارض کا پورا تمدن بدل دیا لیکن بدقسمتی سے تیسری دنیا کی سیاسی اشرافیہ نے اصلاحات کے نعروں کو فیشن کے طور پر اپنا کر اپنی قوموں کو رجعت قہقری کی راہ دکھائی ۔ تبدیلی ظاہری طور پہ تنظیمی ڈھانچے کو بدلنے،دستور العمل میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے یا اندرونی طور پر انتظامی افسران کے رویوں کو بدلنے کا نام ہے،یہاں آزادی و مساوات کے نعروں کی مقبولیت کے باوجود کچھ بھی نہ بدلا۔
ہم آج بھی امتناع کے اسیر ہیں۔ اصلاحات کے چار بنیادی شعبے ہیں جن میں سماجی بہبود کی حفاظت، اخلاقی اصلاحات (ممنوعات سے پرہیز) کو فروغ دینا، معیشت کی اصلاح (ٹرسٹوں کو ختم کرنا اور کاروباری طریقوں کی اصلاح) اور کاروبار کو زیادہ مؤثر بنانا (سائنسی انتظام اور اسمبلی لائن) شامل ہیں۔بلاشبہ اِن اہداف کے درمیان کوئی بھی عدم مطابقت تنازعات کو جنم دیتی،جہاں کسی کا مقصد دوسروں کی ضروریات اور اہداف کی راہ میں رکاوٹ بنتا، وہاں اہداف انسانی بنیادی ضروریات سے حاصل کیے جاتے کیونکہ ضرورتیں لوگوں کے لاشعور میں موجود ہوتی ہیں،لوگ ان ضروریات کو سیاسی نصب العین کے بیانیہ طور پر ہی سمجھ پاتے ہیں۔
ماضی میں انہی تحریکوں نے برصغیر میں ذات پات کی تفریق، اچھوتا پن، بچپن کی شادیاں اور ستی جیسی روایات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔جیسے مغرب میں اصلاح کاروں کا مقصد آرتھوڈوکس عقائد کو چیلنج کرتے ہوئے سماجی انصاف کی وکالت کرنا تھا تاکہ زیادہ مساوی اور ترقی پسند معاشرہ برپا کیا جا سکے۔