ٹیکنالوجی
کیا مصنوعی ذہانت واقعی روزگار چھین لے گی؟
سارہ لندن کی ایک کنسلٹنگ فرم کے ساتھ چھ سال سے پبلک ریلشنز افسر کے طور پر کام کر رہی ہیں، 34 سالہ سارہ کو اپنی ملازمت اچھی لگتی ہے اور وہ اچھی تنخواہ بھی لے رہی ہیں لیکن پچھلے چھ ماہ سے وہ اپنے مستقبل کے متعلق فکرمند ہیں اور اس فکرمندی کی وجہ سے مصنوعی ذہانت۔
سارہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ جس معیار کا کام وہ اپنی فرم کے لیے کر رہی ہیں، اس معیار کا کام مصنوعی ذہانت کے ذریعے کوئی مشین انجام دے سکتی ہے۔ اس سوچ کے باوجود سارہ کا دماغ وسوسوں اور پریشانی کا گھر بنا ہوا ہے۔ سارہ کا کہنا ہے کہ وہ حیران ہیں کہ چیت جی پی ٹی، اس قدر تیزی کے ساتھ اس قدر نفیس اور قابل قدر خدمات انجام دینے کے قابل ہے۔ سارہ کا کہنا ہے کہ مزید چند سال کی بات ہے ایک بوٹ میری جگہ کام کر رہا ہوگا اور بالکل ویسے ہی کام کرے گا جیسے میں کر رہی ہوں۔ سارہ کا کہنا ہے کہ انہیں ایسا سوچنا بھی برا لگتا ہے کہ کیونکہ اس صورت میں ان کی ملازمت اور روزگار کا کیا بنے گا۔
حالیہ چند برسوں میں تواتر کے ساتھ میڈیامیں ہیڈ لائنز شائع ہوئیں کہ روبوٹس انسانوں کی جگہ لے لیں گے، لیکن مصنوعی ذہانت سے لیس چند ٹولز جیسے چیٹ جی پی ٹی،تک جب سے عام انسانوں کی رسائی ہونا شروع ہوئی ہےملازمت پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد اپنے مستقبل اور روزگار کے حوالے سے فکر مند ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے پاس جو ہنر اور صلاحیت ہے کیا آنے والے دنوں میں لیبر مارکیٹ میں اس کی کوئی اہمیت باقی رہ جائے گی یا نہیں؟۔
اس سال مارچ میں ایک انویسٹمنٹ بنک گولڈ مین ساش نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق مصنوعی ذہانت تیس کروڑ کل وقتی ملازمتوں اور روزگار کے مواقع کو ختم کر سکتی ہے۔ پچھلے سال پرائس واٹر ہاؤس کوپر نے ایک سروے جاری کیا تھا کہ جو پوری دنیا میں کیا گیا، اس سروے کے نتائج کے مطابق سروے میں شریک ایک تہائی افراد اس بارے فکرمند تھے کہ اگلے تین برسوں میں ٹیکنالوجی ان کی جگہ لے لے گی۔
میرا خیال ہے کہ تخلیق کاروں کی بڑی تعداد فکرمند ہے، ہم سب یہ امید ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے کلائنٹ ہماری قدر کو سمجھیں گے اور انسانی تخلیق کی قدر پر کاروباری لاگت اور مصنوعی ذہانت کو ترجیح نہیں دیں گے‘ یہ بات برسٹل، یوکے میں کاپی رائٹر کے طور پر کام کرنے والی ایلس نے کہی۔
کیرئیر کوچز اور ہیومن ریسورس ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ فکر مندی تو جائز ہے لیکن ورکرز کو چاہئے کہ وہ اس بات پر دھیان دیں کہ کیا کچھ ان کے کنٹرول میں رہ سکتا ہے۔ مشینوں کی وجہ سے روزگار کھونے کا ڈر چھوڑ کر انہیں مشینوں کے ساتھ کام کرنے کے طریقے سیکھنے چاہئیں۔
انجانا خوف
کچھ لوگوں کے نزدیک مصنوعی ذہانت اور چیٹ جی پی ٹی کا جن اچانک سے نکل آیا ہے اور مصنوعی ذہانت میں اب دوڑ سی لگی ہے، یہ بات ان کے لیے زیادہ پریشان کن ہے اور اضطراب کا باعث ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی لیکچرر اور کیرئیر کوچ کیرولین مونٹروس مانتی ہیں کہ ٹیکنالوجی ایجادات کی رفتار اور تبدیلی خوفناک ہو سکتی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’ فکرمند ہونا نارمل بات ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے اثرات تیز رفتار ہیں اور ابھی تک اس کے کئی پہلو نامعلوم ہیں‘۔ تاہم کیورولین یہ بھی کہتی ہیں کہ اپنے وجود اور روزگار کے مٹنے کا خوف محسوس کرنا ضروری نہیں، لوگوں کے پاس اختیار ہے کہ مصنوعی ذہانت سے ڈر کا انتخاب کرتے ہیں یا مصنوعی ذہانت کو جاننے اور اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کا انتخاب کرتے ہیں ۔
پرائس واٹر ہاؤس کوپر سے وابستہ ماہر سکاٹ لکنز کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کاموں کو خودکار اور سٹریم لائن کر سکتی ہے لیکن درست مہارتیں رکھنے والے افراد ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے ساتھ ترقی کرنے کے قبل ہو سکتے ہیں ۔ورکرز کو ڈرنا چھوڑ کر مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی پر دھیان دینا ہوگا، تعلیم اور ٹریننگ ہی مصنوعی ذہانت کو سیکھنے کی کنجی ہیں اور وہ یہ سیکھ سکتے ہیں کہ ان کے موجودہ کردار کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے اور وہ کون سی نئی مہارتیں سیکھ سکتے ہیں ۔مصنوعی ذہانت سے ڈرنے یا شرمانے کی بجائے ورکرز کو چاہئے کہ مصنوعی ذہانت کو اپنانے اور سیکھنے کی منصوبہ بندی کریں۔ وہ یادلاتی ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ ہمیں آٹومیشن سے مینوفیکچرنگ تک اور ریٹیل سے ای کامرس تک کئی بار ایسے مواقع دیکھنے کو ملے اور ہم نے ان حالات میں خود کو نئے طریقوں میں ڈھالا۔ٹیکنالوجی کی ترقی دراصل معاشرے کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے حوالے سے لوگوں کا ردعمل جو بھی ہو اب مصنوعی ذہانت کے ٹولز ہمارے ساتھ رہیں گے، اس لیے ان سے ڈرنے کی بجائے اپنی مہارت بڑھانے کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ مصنوعی ذہانت سے ڈر لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ہوگا، مصنوعی ذہانت نہیں۔
انسان کی قدر باقی رہے گی
چند حالیہ سائنسی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ روبوٹس کا انسان کی جگہ لینے کا خوف بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ نومبر 2022 میں یوٹاہ، امریکا کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی نے ایک تحقیق کی جس کے مطابق روبوٹس اس تیزی سے انسانوں کی جگہ نہیں لے رہے جس قدر لوگ اس پر یقین کر رہے ہیں، اس تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو روزگار چھن جانے کا ڈر ہے وہ اس ڈر کو دوگنا کر کے پیش کر رہے ہیں اور جن لوگوں کا روزگار ٹیکنالوجی کی وجہ سے چھن گیا ہے وہ اس خطرے کو تین گنا بڑھا کر پیش کر رہے ہیں ۔ اس تحقیق میں کہا گیا کہ کچھ کام ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکن ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ کام ٹیکنالوجی سے ہی لیے جائیں
ایک اور ماہر سٹیفنی کولمین کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں مستقبل میں افرادی قوت روبوٹس اور انسانوں دونوں پر مشتمل ہو نا ممکن نہیں، کاروبار میں اہم امور کی انجام دہی کے لیے انسانوں کا موجود ہونا ضروری ہے اور وہ کام روبوٹ انجام نہیں دے سکتے۔ اس قسم کے کاموں کے لیے فطری انسانی خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ رشتے بنانا، تخلیقی صلاحیت اور جذباتی ذہانت وغیرہ۔ افرادی قوت میں جب انسانوں کا مشینوں سے موازنہ کیا جاتا ہے تب ڈر پیدا ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔