دنیا
کیا امریکا اور چین میں 5 سال تک فوجی رابطے اور مذاکرات معطل رہیں گے؟
جنوبی بحیرہ چین اور تائیوان سمیت کئی ایشوز پر امریکا اور چین کے تعلقات شدید سردمہری کا شکار ہیں، امریکی وزیر خارجہ انٹبی بلنکن بیجنگ کے دورے کے دوران تعلقات میں پیشرفت لانے میں ناکام رہے۔ اس سے پہلے سنگاپور میں شنگریلا سکیورٹی ڈائیلاگ کے موقع پر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے چین کے ہم منصب سے بات چیت کی کوشش کی تھی لیکن بات مصافحہ سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ دونوں ملکوں کے درمیان کے درمیان کیا کوئی رابطہ ہے یا بالکل ختم ہو گیا ہے؟
امریکا نے چین کے نئے وزیر دفاع جنرل لی پر اب تک پابندیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں جو 2017 میں روس سے اسلحہ کی خریداری کے بعد عائد کی گئی تھیں، چین بار بار ان پابندیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کرتا رہا ہے، اب چین نے وزارت دفاع کی سطح پر امریکا سے مذاکرات بند کر رکھے ہیں۔
چین کے وزیر دفاع اور دیگر سینئر حکام یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکا چین کے ساحلوں کے قریب گشت اور نگرانی بند کرے اور تائیوان کو اسلحہ کی فروخت بھی روکے۔ امریکی کانگریس کی سابق سپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کی وجہ سے بھی کشیدگی بڑھی اور چین نے امریکا کے ساتھ فوجی مذاکرات بند کئے۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ 2021 سے چین امریکی فوج اور پینٹاگون می طرف سے بات چیت کی درجنوں درخواستیں مسترد کر چکا ہے اور ورکنگ لیول مذاکرات دس بار مسترد کئے جا چکے ہیں۔
خطے کے ملک اس کشمکش کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس تنازع میں گھسیٹے جانے کا ڈر بھی ہے،فوجی ماہرین سیاسی اختلافات کو بالئے طاق رکھ کر فوجی سطح پر ہموار رابطوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ رابطے بالکل منقطع ہو چکے، دونوں ملکوں کے سفارتخانوں میں تعینات فوجی اتاشی جب چاہیں متعلقہ حکام سے مل سکتے ہیں، یہ ایک معمول کا اہم رابطہ ہے جو کھلا ہے۔
بحری جہازوں اور جنگی طیاروں کے دریان معمول کی کمیونیکیشن بھی برقرار ہے، چین کے سنیئر انٹیلی جنس حکام نے پچھلے ماہ سنگاپور میں علاقے کے انٹیلی جنس سربراہوں کی خفیہ میٹنگ میں بھی شرکت کی، اس اجلاس میں امریکا کی نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر ایورل ہینز بھی شریک تھیں۔
آگے کیا ہونے والا ہے؟ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسی ماہ کہا تھا کہ واشنگٹن فوجی مذاکرات کے لیے زور دیتا رہے گا اور یہ چین کے لیے کوئی فیور نہیں بلکہ اس کی ضرورت ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا چین کے وزیر دفاع جنرل لی پر عائد پابندیاں ہٹائے جانے کا کوئی امکان نہیں اور امریکا مشرقی ایشیا میں اپنی فوجی تعیناتیوں میں بھی کوئی کمی نہیں کرے گا، تائیوان کے مسئلے پر بھی امریکی موقف میں تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی۔
چین کے وزیر دفاع جنرل لی کی مدت پہانچ سال ہے اور ان پانچ برسوں میں امریکا کے جنرل لی سے اعلیٰ یا ان کے ماتحت حکام کے ساتھ مذاکرات بھی ممکن نظر نہیں آتے، ماہرین جنرل لی پر عائد پابندیوں کو ایک شیر کی مانند قرار دیتے ہیں جس نے راستے بند کئے ہوئے ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کا یہی موقف ہے کہ جنرل لی پر پابندیوں کے ہوتے ہوئے فوجی رابطے ممکن نہیں اور امریکا کو پہلے یہ رکاوٹ دور کرنا ہوگی۔
امریکا کی انڈوپیسفک کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل جان ایکولینو نے چین کے ہم منصب جنرل لین شیانگینگ سے بات چیت کی درخواست کی ہوئی ہے جس کا اب تک جواب نہیں ملا، پینذٹاگون طویل مدتی طور پر چین کے ساتھ فوجی روابط بڑھانا چاہتا ہے تاکہ کئی ایک موضوعات پر بات ہو سکے جن میں چن کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ بھی شامل ہے لیکن پینٹاگون کی سالانہ رپورٹ برائے چین میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ چین کی قیادت اور فیصلہ ساز سٹرٹیجک استحکام اور رابطوں کے متعلق کیا سوچتے ہیں۔ چین جوہری معاملات، سائبر سکیورٹی پر بات چیت میں تذبذب کا شکار ہے۔
اس ماہ سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران جنرل لی نے کہا تھا کہ چین فوجی رابطوں کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے سب سے پہلے باہمی احترام کی ضرورت ہے، اس کے بغیر کسی بھی طرح کے رابطے سودمند نہیں ہوں گے۔