Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

کیا چین مشرق وسطیٰ میں امریکا کی جگہ لے لے گا؟

Published

on

سعودی عرب اور ایران کے وزرا خارجہ سات برس میں پہلی بار اس سال چھ اپریل کو ملے جبکہ اس سے ایک ماہ پہلے دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے اعلیٰ حکام  کی ملاقات نے پہلے ہی دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔

سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بحالی کے لیے ہونے والی ملاقاتیں مشرق وسطیٰ سے باہر ہوئیں ، ان ملاقاتوں کی میزبانی چین نے کی اور ثالث کا کردار بھی ادا کیا، اس سے پہلے عراق اور عمان برسوں ثالثی کی کوششیں کرتے رہے جو بے نتیجہ ثابت ہوئیں۔

مغربی دنیا پہلے ہی ماسکو  کی معیشت کو یوکرین جنگ کے بعد کی پابندیوں سے بچانے پر چین سے نالاں ہے اور اب سعودی ایران مفاہمت کے بعد مغربی دنیا کو نئے خدشات درپیش ہیں۔ چین  جو خود کو بین الاقوامی تنازعات سے دور رکھنے کی پالیسی پر عشروں عمل پیرا رہا اب اس نئی ڈویلپمنٹ کے بعد خود کو مشرق وسطیٰ میں امن کے پیامبر  کے طور پر دیکھ رہا ہے اور اس کا ثبوت سعودی ایران تعلقات بحالی کے بعد بیجنگ میں گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو  کا انعقاد ہوا جس  کا مقصد  دنیا بھر میں ملکوں کے درمیان تنازعات کو پرامن حل کرنا بتایا گیا۔

پچھلے ہفتے چین کے وزیر خارجہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے لیے ثالثی کی بھی پیشکش کی۔  سعودی ایران ڈیل  نے چین کو مستقبل کے ثالثی منصوبوں کے لیے لانچ پیڈ مہیا کردیا ہے۔

یہ تمام پیشرفت  ایسے ماحول میں ہو رہی ہے جب  مشرق وسطیٰ کے روایتی پاور بروکر امریکا کا اثر و رسوخ کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکا کا ایران کے جوہری پروگرام سے نکلنا،  سعودی عرب کے ساتھ کبھی گرمجوش اور کبھی سرد تعلقات اور عراق اور افغانستان پر طویل مدتی قبضے کے بعد انخلا   نے امریکی ساکھ کو شدید دھچکا لگایا ہے۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا چین مشرق وسطیٰ میں  امریکا کی جگہ لے سکتا ہے  اور وہی سب کچھ کر سکتا ہے جو امریکا اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود کرتا رہا ہے؟۔

چین امریکا کی جگہ لینے کی اہلیت کیوں نہیں رکھتا؟

مختصر جواب تو یہ ہے کہ  چین تیزی سے بڑھتے اثر و رسوخ کے باوجود مشرق وسطیٰ میں امریکا کی جگہ لینے کی اہلیت نہیں رکھتا، مشرق وسطیٰ میں امریکا کے کئی فوجی اڈے  اور اتحادی موجود ہیں اور امریکا ان اتحادیوں کے دفاع کا ضامن ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین شاید ابھی کوئی ایسی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوگا۔فی الحال چین سفارتی اور معاشی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھائے گا اور سکیورٹی معاملات کو امریکا کے ہاتھ میں ہی رہنے دے گا۔

چین مشرق وسطیٰ میں اہم شراکت دار

ایران سعودی ڈیل سے پہلے چین خود کو مشرق وسطیٰ میں ا ہم شراکت دار کے طور پر منوا چکا ہے۔چین سعودی عرب اور ایران دونوں کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور دونوں ملکوں کے تیل کا بھی سب سے بڑا خریدار ہے۔چین نے دو ہزار اکیس میں ایران کے ساتھ پچیس سالہ تعاون معاہدہ  اور دو ہزار بائیس میں سعودی عرب کے ساتھ سٹرٹیجک تعاون معاہدہ کر کے  ان تعلقات کو مزید مضبوطی بخشی ۔

چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ایک اور بڑا عنصر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہے جو ایشیا، یورپ اور افریقا کو بندرگاہوں، ریلویز اور ہائی ویز کے ساتھ منسلک کرے گا اور چین نے  دو ہزار پانچ سے دو ہزار بائیس کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر دو سو تہر ارب ڈالرز خرچ کئے ہیں۔ چین مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔چین عراق سے تیل، قطر سے گیس خریدتا ہے اور الجیریا، مراکش، ترکی ، سعودی عرب اور مصر کو اسلحہ فراہم کرتا ہے۔چین مصر کے نئے دارالحکومت کی تعمیر میں بھی مدد دے رہا ہے اور مکہ مکرمہ میں میٹرو ریل نیٹ ورک  بھی چین کی مدد سے تعمیر ہوا۔

دسمبر دو ہزار بائیس میں چین کے صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا تین روزہ دورہ کیا اور اس موقع پر چین اور عرب لیگ، خلیج تعاون کونسل ممالک  کی پہلی سربراہ کانفرنس بھی ہوئی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے چین کے صدر کے دورہ کو نیا تاریخی دور قرار دیا۔چین تیز ترین رفتار سے ٹیکنالوجی کے شعبہ میں آگے بڑھ رہا ہے اور اپنی کمپنیوں کے ذریعے  پورے خطے کو  فائیو جی سے منسلک کر سکتا ہے۔

یہ سب اقدامات چین کو مشرق وسطیٰ میں  اثر و رسوخ بخشتے ہیں اور خطے کا ہر ملک اپنی معاشی ترقی کی خاطر  چین کی گڈ بک میں رہنے کا خواہشمند ہے۔

چین کو مشرق وسطیٰ کے ملک خطرہ نہیں سمجھتے

چین کی دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور انسانی حقوق کے نام پر دوسرے ملکوں کو دھمکانے کی بھی کوئی پالیسی نہیں، اس پالیسی کی وجہ سے بھی چین امریکا کی نسبت زیادہ غیر جانبدار اور غیر متنازع ثالث بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔چین دنیا میں کسی ایک ملک کے مفادات سے بھی منسلک نہیں، جیسے امریکا نے خود کو اسرائیلی مفادات کا نگہبان  مقرر کیا ہوا ہے، چین کسی دوسرے ملک پر کبھی حملہ آور بھی نہیں ہوا اور نہ کبھی کسی ملک پر معاشی پابندیوں کے ہتھیار کو استعمال کرتا ہے۔

چین کی ان پالیسیوں کے پیش نظر کوئی ملک بھی چین کو خطرہ تصور نہیں کرتا، امریکا کی ساکھ ان حوالوں سے  انتہائی بری ہے اور حالیہ یوکرین جنگ کے بعد امریکا کی روس پر عائد پابندیوں نے بھی خطے کے ملکوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ امریکا کسی  بھی ملک کو بین الاقوامی مالیاتی سسٹم سے نہ صرف نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس نے روس کے خلاف اس ہتھیار کو استعمال بھی کر لیا ہے جس کے بعد امریکا دوسرے ملکوں کے لیے زیادہ خطرناک اور ناقابل اعتبار بن گیا ہے۔چین مشرق وسطیٰ میں امریکا کی جگہ لینے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ ایک مختلف طاقت کے طور پر ابھرا ہے اور یہ طاقت معیشت کی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ  مشرق وسطیٰ میں چین امریکا کا متبادل بنے گا یا نہیں؟ اس سوال کے جواب کے  لیے ابھی انتظار کرنا ہوگا کیونکہ چین نے معاشی طاقت کے بل بوتے پر جو معاہدے کیے ہیں کیا ان پر عمل بھی کراپائے گا یا ناکام ہو جائے گا کیونکہ امریکا کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے  دراصل خطے کے تھانیدار  کی نگرانی میں ہونے والے معاہدے تھے اور ان کی ناکامی کا امکان کم رہتا تھا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین