پاکستان
محکمہ کے عملہ کی ملی بھگت سے مافیا نے مری کے سرکاری جنگل کی 75.36 کنال اراضی پر قبضہ کر لیا
محکمہ جنگلات مری کے عملہ کی پشت پناہی، قبضہ مافیا نے سرکاری جنگل کی 6 برجیاں اکھاڑ کر محکمہ جنگلات کی 75.36کنال اراضی پر قبضہ کر لیا، مقامی ابادی کی نشاندہی پر ابتدائی انکوائری رپورٹ میں جنگل کے برجیاں اکھاڑنا ثابت، مافیا کی ملی بھگت سے معاملہ کی دوسری انکوائری کے نتیجے میں سرکاری جنگل بیچ کھانے والوں کی جگہ پہلی انکوائری رپورٹ مرتب کرنے والے افسر کو معطل کر دیا گیا۔ کنزرویٹر اور ڈی ایف او مری تاحال گرفت میں نہ آ سکے۔
شہریوں کی طرف سے تیس مارچ 2024 کو سیکرٹری جنگلات کے نام دی گئی درخواست میں بتایا گیا کہ محکمہ جنگلات کے عملہ کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا نے موضع مانگا میں واقع سرکاری جنگل نمبر 91 کی چھ عدد برجیاں اکھاڑ کر سینکٹروں کنال سرکاری اراضی پر قبضہ جما لیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ مافیا سرکاری نشان زدہ نئی برجیاں جنگل اراضی کے اندر تعمیر بھی کر دی ہیں۔ اس سارے عمل میں ڈی ایف او مری، کلرک وجاہت، فارسٹ گارڈ اور حلقہ پٹواری ملوث ہیں معاملہ کی انکوائری کروا کر ملوث عملے کے خلاف محکمانہ کروائی عمل میں لائی جائے
سیکرٹری جنگلات کے حکم پر ڈویژنل فارسٹ آفیسر ساؤتھ عامر سہیل کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ کی کالی بھیڑوں نے گوگل لائنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زمین پر قبضہ کرنے والوں کو سہولت فراہم کی، باؤنڈری کے ستونوں کو منتقل کیا اور تقریباً 9.42 ایکڑ(75.36 )کنال اراضی پر قبضہ کرنے کی اجازت دی اس سرکاری زمین کی مالیت 750 ملین روپے ہے۔ محکمہ جنگلات کے عملے نے دستاویزی فلم اور ڈیجیٹل شواہد کی موجودگی میں سنگین مجرمانہ جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
مسمار شدہ (برجیاں)باؤنڈری ستون WWF پاکستان کی طرف سے ڈیجیٹلائزیشن کے آغاز سے پہلے ہی تعمیر کیے گئے تھے۔ لہذا گوگل لائنوں کے ساتھ سیدھ میں ان ختم شدہ باؤنڈری ستونوں کو قائم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔گوگل امیجز اور جنگلاتی عملے کے بیان کی صورت میں سائٹ پر موجود شواہد سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ صرف گوگل لائن کے بہانے عملے نے 6 باؤنڈری پلرز کو منتقل کیا اور زمین پر قبضہ کرنے والوں کو ریاست کی تقریباً 9.42 ایکڑ اراضی پر قبضہ کرنے میں سہولت فراہم کی۔یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ باؤنڈری کے ستونوں کو محکمہ جنگلات کے عملے کی فعال ملی بھگت سے منتقل کیا گیا۔انکوائری رپورٹ میں واضح درج ہے کہ محمد عرفان اور ظہیر نامی افراد مزکورہ سرکاری جنگل کی فروخت میں ملوث ہیں ،جبکہ فارسٹ گارڈ گل خطاب اور وجاہت علی نامی کلرک نے ان عمل میں بھاری کمیشن وصول کی۔
محکمانہ انکوائری رپورٹ کی روشنی میں ابتدائی طور پر تین جونیئر ملازمین کو معطل کیا گیا جبکہ چند نادیدہ قوتوں کی ایماء پر اس انکوائری پر ایک نئی انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی۔ نئی کمیٹی نے پہلی رپورٹ میں اس ساری واردات کا بھانڈہ پھوڑنے والے افسر کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف کاروائی کی سفارش کی جسے بعد ازاں معطل کر دیا گیا۔ اب اس دوسری انکوائری کے بعد ایک تیسری انکوائری بھی محکمے کے افسران کو بچانے کیلئے کی جا رہی ہے۔