Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

الیکشن تو جیت لیا، کیا فوج حکومت کرنے دے گی؟

Published

on

تھائی لینڈ میں اتوار کے روز ہونے والے الیکشن میں تھائی عوام نے فوج کی حمایت یافتہ حکومت کو نکال باہر کیا اور ترقی پسند جماعت، موو فارورڈ پارٹی، کو غیرمعمولی کامیابی ملی، تھائی لینڈ کی بڑی اپوزیشن جماعت، فیو تھائی، پچھلے بیس برس سے مقبولیت پسند طاقت ہے، وہ دوسرے نمبر پر رہی۔

موو فارورڈ اور فیو تھائی نے مل کر قدامت پسند، فوج کی حمایت یافتہ جماعت کو شکست  دی، فوج کی حمایت یافتہ جماعت کئی عشروں سے بار بار حکومت کر رہی تھی، کئی بار اس جماعت نے منتخب حکومتوں کو فوج کی مدد سے نکال باہر کیا۔

فوج کی حمایت یافتہ جماعت کی شکست کو فوجی آمریت کی شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے، اس الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں کی کامیابی سیاست میں فوج کے اثرورسوخ کے خلاف عوام کا فیصلہ تصور کی جا رہی ہے۔

پچھلے بیس برسوں میں جب بھی تھائی لینڈ کے عوام کو ووٹ کس موقع ملا انہوں نے فوج مخالف جماعتوں کو سپورٹ کیا، اتوار کے روزہونے والی پولنگ میں ٹرن آؤٹ ریکارڈ رہا اور بیس برس کی روایت بھی قائم رہی۔

الیکشن میں اپوزیشن جماعتیں کامیاب تو ہوئی ہیں لیکن حکومت کون کرے گا ابھی تک یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، اس کی وجہ 2014 میں فوجی جنتا کی اقتدار پر قبضے کے بعد کی گئی آئینی ترامیم ہیں،ان ترامیم سے یقینی بنایا گیا تھا کہ مقبول ووٹ کوئی بھی حاصل کرے لیکن قیادت کا حق کسے ملے گا؟ اس فیصلے میں فوج کی مرضی شامل رہے گی۔

اپوزیشن کی دونوں جماعتوں کو کامیابی تو ملی ہے لیکن حکومت بنانے کے لیے درکار 376 نسشتیں کسی ایک جماعت کے پاس نہیں اور حکومت کی تشکیل کے لیے اتحاد بنانے کی ضرورت ہوگی لیکن یہ سب اتنا بھی سادہ نہیں۔

پہلی بڑی مشکل سینیٹ سے بڑے ووٹنگ بلاک کو ساتھ ملانا ہے، فوجی جنتا کے دور میں بنائے گئے آئین کے مطابق 250 رکنی سینیٹ کا انتخاب فوج خود کرتی ہے، ماضی میں فوج کے چنے گئے سینیٹ نے ہربارفوج کے امیدوار کو ہی ووٹ دیئے۔

کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے اور وزیراعظم کے انتخاب کے لیے دونوں ایوانوں سے 750 ووٹ درکار ہوتے ہیں،2019ء میں فیو پارٹی نے ایوان زیریں میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن فوج کے حمایت یافتہ پرایوت چان او چا وزیراعظم بنے تھے کیونکہ سینٹ نے ان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

ترقی پسند جماعت، موو فارورڈ، کے لیے ایک اور بڑی پریشانی قدامت پسندوں، بادشاہت اور فوج کا اتحاد ہے، بادشاہت اور قدامت پسندوں کے مخالف سیاستدان اور جماعتیں پابندی کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ پارٹیوں پر پابندیاں لگا کر ان کی حکومتیں الٹائی جاتی رہی ہیں، 1932 سے اب تکل تھائی لینڈ میں درجنوں بغاوتیں ہوئیں اور حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا،پچھلے 17 سال میں دوبار حکومت کا تختہ الٹا جا چکا ہے۔

الیکشن کمیشن، اینٹی کرپشن اور آئینی عدالت سب سٹیبلشمنٹ کےزیراثر ہیں۔ اس وقت موو فارورڈ پارٹی کے حق میں صرف ایک بات ہے اور وہ ان کا فوجی حمایت یافتہ جماعتوں پر انتخابی غلبہ ہے۔ اب انتخابی نتائج کو بدلنا بھی آسان کام نہیں ، یہی بات موو فارورڈ کے حق میں جاتی ہے۔

موو فارورڈ پارٹی سے پہلے اس طرح کی کامیابی کی ایک مثال قائم ہوئی لیکن انجام اچھا نہیں ہوا، فیوچر فارورڈ پارٹی 2019ء میں تیسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی لیکن اس کے کئی لیڈروں پر پابندی لگا دی گئی اور آخرکار اس جماعت کو ہی عدالتی فیصلے کے ذریعے ختم کردیا گیا۔

فوجی جنتا نے فیوچر فارورڈ پارٹی سے جان چھڑا لی لیکن موو فارورڈ پارٹی نے جنم لیا اور اتوار کے زور انتخابی معرکہ میں فوجی حمایتی یافتہ حکمرانوں کو پچھاڑ دیا۔ 2020ء میں فیوچر فارورڈ پارٹی کے خاتمہ پر نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کئے، اس احتجاجی مہم سے نوجوان لیڈروں کا ظہور ہوا، ان لیڈروں نے سیاست میں کئی ممنوعات پر بحث کو چھیڑا اور بادشاہت میں بھی اصلاحات کی بات کی۔

تھائی لینڈ میں بادشاہت کے متعلق کسی بھی بحث پر جیل کا خطرہ رہتا ہے، کئی نوجوانوں کو بادشاہت پر تنقید کی پاداش میں جیل جانا پڑا،اب موو فارورڈ پارٹی نے بادشاہت میں اصلاحات کو منشور کا حصہ بنایا ہوا ہے جو فوجی سٹیبلشمنٹ کے لیے درد سر ہے۔

اب موو فارورڈ پارٹی کو کسی عدالتی فیصلکے سے تحلیل کیا جاتا ہے یا اقتدار فوج سنبھالتی ہے تو اس کے نتائج بھی سنگین ہو سکتے ہیں کیونکہ فیوچر فارورڈ پارٹی کو تحلیل کر کے بھی اس مصیبت سے چھٹکارا نہیں مل سکا جس سے چھٹکارا درکار تھا، اس کے باوجود فوج کا اقتدار پر قبضہ خارج از امکان نہیں

مصباح اسلم نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے 2006 میں سیاسیات میں ایم اے کیا۔ شعبہ تدریس سے وابستہ رہیں۔ سماجی اور سیاسی ایشوز میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ مذہب سے خاص لگاؤ ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین