Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

نظرثانی قانون بناتے ہوئے حکومت جلدبازی کر گئی، سوچ بچار کرنی چاہئے تھی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

Published

on

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب انتخابات اور ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریویو ایکٹ سے متعلق درخواستیں پہلے سنیں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی زیر التوا ہے،قانون بدلنے کے بعد نظرثانی کے رولز بدل گئے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ہم پہلے ریویو ایکٹ سنیں گے اس کے مطابق پھر الیکشن کیس دیکھیں گے۔تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ ہم نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ سے متعلق متفرق درخواست دی اسے بھی سنا جائے۔

درخواست گزاروں نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ پر حکم امتناع کی استدعا کی ،سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ پر حکم امتناع کی استدعا مسترد کر دی

چیف جسٹس نے کہا کہ کیس سنے بغیر مفروضات کے بنیاد پر کیسے حکم امتناع دے دیں۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی کے بعد اپیل کا حق نہیں دیا جاسکتا،اس کیس کو بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیساتھ سنا جائے،نئے قانون کے تحت تین رکنی بنچ نظرثانی درخواست نہیں سن سکتا،پنجاب الیکشن کا معاملہ ریو آف ججمنٹ کیس کا فیصلہ ہونے تک زیر التواء رکھا جائے۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کی استدعا منظور کرلی، چیف جسٹس نے کہا کہ ایکٹ سے متعلق تمام حقائق دیکھ کر پھر نظرثانی کیس کو آگے بڑھائیں گے۔ درخواست گزار نے کہا کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر دو قوانین مماثلت رکھتے ہیں تو بتائیں آرٹیکل 188 کے تحت یہ قانون کیسے غیر آئینی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو صرف قانون لانے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا،آئینی ترمیم کے بغیر کیسے سپریم کورٹ کے رولز بدل سکتے ہیں،سپریم کورٹ کا 14 ممبر بنچ سپریم کورٹ رولز سے متعلق فیصلہ دے چکا ہے،سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ نظرثانی رولز سپریم کورٹ کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں ہوسکتے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے پہلے ایک قانون کو معطل کیا ہے دوبارہ ایک اور قانون کو معطل نہیں کرسکتے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ٹھوس دلائل پیش کریں کہ کیوں عدالت اس قانون کے کومعطل کرے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک قانون خلاف آئین ہے تو ہرگز یہ قرار نہیں دیا سکتا کہ دوسرا قانون بھی خلاف قانون ہے،دو قوانین میں مطابقت ہونا بالکل الگ بات ہے،قوانین میں مطابقت ہونا آئینی خلاف ورزی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ آئین سے متصادم ہے،سپریم کورٹ آرٹیکل 184 ایک کے تحت دو حکومتوں کے درمیان معاملات سن سکتی ہے،آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ بنیادی حقوق سے متعلق معاملات سن سکتی ہے،سپریم کورٹ نظرثانی کے رولز خود تبدیل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے رولز براہ راست تبدیل نہیں کرسکتی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اس سے سپریم کورٹ کے اختیارات وسیع ہوئے، آپ کے دلائل کے مطابق نظرثانی اختیارات صرف سپریم کورٹ بدل سکتی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل نہیں ہوسکتی،اپیل اور نظرثانی میں بہت بڑا فرق ہے،حکومت نے اپیل کے تمام لوازمات نظرثانی کیساتھ ملا دیئے ہیں،موجودہ قانون سازی سے سپر اپیل کا حق دے دیا گیا ہے، ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ سے عدالتی فیصلے ختم کر دیئے گئے ہیں۔

جسٹس اعجالاحسن نے کہا کہ جب 1973 میں آئین بنایا گیا تو نظرثانی اصول طے کیے گئے،آئین سازوں نے نظرثانی کے رولز واضح کئے۔

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ کل کو حکومت ایسا قانون بھی بنا سکتی کہ دوسری اپیل کا بھی حق ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بھارت نے چیمبر سماعت میں کیوریٹیو ریویو کا قانون بنا دیا ہے،حکومت کو قانون سازی جلد بازی کے بجائے تحمل سے اور سوچ بچار کے بعد کرنی چاہیے۔

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ حکومت نے قانون سازی کرتے وقت قوانین پر بحث بھی نہیں کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ حکومت سے نظرثانی قانون بناتے ہوئے جلدی ہوگئی ہے۔وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ نظرثانی اپیل سے سارا کیس دوبارہ سننا پڑے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل دوبارہ اس کیس کو سنیں گے، کل الیکشن کمیشن کے وکیل کو تین منٹ دیں گے۔

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ میں کل پانچ منٹ لوں گا۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین