Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

فیض حمید اور دو افسر لاہور میرے گھر استعفیٰ لینے آئے تھے، زاہد حامد کا دھرنا کمیشن میں بیان

Published

on

فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں شہباز شریف اور اس وقت کے وزیراعلیٰ شاہد خاقان عباسی کے درمیان اختلافات سامنے آئے ہیں۔دھرنا کمیشن کو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے بیانات سامنے آ گئے۔

شہباز شریف نے دھرنا کمیشن کو بتایا کہ ٹی ایل پی پر پابندی سے متعلق انٹیلیجنس رپورٹ صوبائی حکومت سے شئیر نہیں کی گئی،ٹی ایل پی اور وفاقی حکومت میں معاہدے پر اتفاق کیا گیا۔شہباز شریف نے بیان دیاا کہ ٹی ایل پی اور وفاقی حکومت میں طے پایا تھا کہ کارکنان اور قیادت کے خلاف مقدمات واپس لیے جائینگے۔

اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد نے دھرنا کمیشن کو بتایا کہ فیض حمید اور دو افسران نے فیض آباد دھرنے کے دوران ان سے ملاقات کی اور استعفے کا کہا، 26 نومبر 2017 کی شام آئی ایس آئی کے جونیئر افسران لاہور میں میرے گھر مجھ سے استعفیٰ لینے آئے۔

زاہد حامد نے کہا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے تجویز دی کہ مختصر وقت کے لیے استعفے پر غور کرسکتے ہیں؟ فیض حمید سمجھتے تھے کہ میں کچھ عرصہ چھٹی پربھی چلا جاؤں تو ٹی ایل پی مطمئن ہوجائےگی۔زاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم کو پیشکش کی تھی مگر وہ ماننے کو تیار نہیں تھے، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نےکہا تھا حکومت توڑ دیں گے وزیرکو استعفیٰ نہیں دینے دیں گے۔

کمیشن نے فائنڈنگ دی کہ سینئر سطح پر کمزور کنٹرول دیکھا گیا۔رپورٹ کے مطابق معاملات سے بہ طریقِ احسن نمٹنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ابتدائی طور پر کوتاہی سرزد ہوئی۔ اس معاملے میں وفاق اور پنجاب حکومت کے موقف میں بہت فرق تھا۔

رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت فیض آباد دھرنے سے نمٹنے میں ابتدائی سطح پر ناکامی سے دوچار ہوئی۔ شاہد خاقان عباسی نے پنجاب حکومت کو احتجاج پر قابو پانے کیلئے قائل کیا تاہم اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب شہبازشریف نےاسلام آباد جانے کی اجازت دے دی کیونکہ حکومت پنجاب کا خیال تھا کہ زاہد حامد کے مستعفی ہونے سے معاملہ ختم ہوسکتا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے اس کے برعکس موقف اختیار کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم اور وزرا کے پاس واضح اور متعین اختیارات نہیں تھے۔ مصطفیٰ امپیکس کیس سے وزیر اعظم کی ایگزیکٹو اتھارٹی مزید کمزور پڑگئی۔

رپورٹ کے مطابق جہاں بھی لفظ حکومت آتا ہے وہاں احکامات کے لیے کابینہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فیصلوں میں تاخیر ہو جاتی ہے یا فیصلے کمزور نکلتے ہیں۔

کمیشن نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کارکردگی کو ریگیولیٹ کرنے کے لیے کرنے کا کوئی قانون نہیں۔ اس کے لیے ضروری قانون سازی کی جاسکتی ہے جس کے بعد قواعد و ضوابط طے کرکے اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر طے کیا جاسکتا ہے۔

کمیشن نے سفارش کی ہے کہ 2004 سے 2014 تک ڈی آئی خان، لکی مروت، بنوں، کوہاٹ، ہنگو، سوات، دیر، بونیر، شانگلہ، مردان، چارسدہ جیسے آپریشنل علاقوں میں خدمات انجام دینے والے تمام افراد کو مناسب انعام دیا جائے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین