Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

بڑھتی آبادی اور متوقع دیوالیہ پن

Published

on

آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے ملکی نظام چلانے کے لیے ہم ورلڈبینک، آئی ایم ایف اور یورپی یونین سے قرضہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہماری فی کس آمدنی ایک ہزار دوسوڈالر سالانہ ہے جبکہ اعداد وشمار کے مطابق ہر بچہ 1600 ڈالر کا مقروض ہے۔ پاکستانی آبادی کا 63 فیصد نو جوانوں پر مشتمل ہے جو ایک خوش آئند امر ہے لیکن کثرت آبادی کی وجہ سے نوجوان ترقی کے ثمرات سے محروم ہور ہے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح سات فیصد ہے جبکہ نوجوانوں میں یہ شرح دوگنی ہے۔

’’چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ‘‘ کے زریں اصول پر عمل کرتے ہوئے چین، جاپان اور روس سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک نے آبادی کے ‘جن ‘پر کافی حد تک قابو پالیا ہے۔ لیکن پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے۔ زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کی تعلیم وصحت کے علاوہ دیگر بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پاتے جس کے نتیجہ میں یہ بچے تعلیم سے محروم ہو کر ملک وقوم کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔

لیبر فورس کی مجموعی تعداد اور 45 لاکھ بیروزگار

آبادی اور وسائل میں توازن نہ رکھنے والے ممالک میں بیروزگاری کا عام ہونااچھنبے کی بات نہیں۔ 22-2021ء کی لیبر سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی لیبر فورس کی تعداد 7 کروڑ 17 لاکھ ہے، جس میں سے 45لاکھ 10 ہزار افراد بے روزگار ہیں۔ پاکستان میں اوسط ماہانہ تنخواہ 20 ہزارسے28 روپے فی کس ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کو دیکھا جائے تو قیاس ہے کہ 2050ء تک پاکستان کی آبادی جب 35 کروڑ سے تجاوز ہو چکی ہوگی اور ملک میں 2 کروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہوں گے۔

آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ جہالت

آبادی میں ہوشربا اضافے کی ایک بڑی وجہ جہالت اور جنسی تعلیم کا فقدان ہے۔ اس ضمن میں عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے میڈیا اپنا فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ تعلیمی نصاب میں گھر کی اقتصادیات اور آبادی کے متعلق مضامین شامل کیے جائیں جن میں اعداد وشمار کے ساتھ بچوں کو سمجھایا جائے کہ آبادی کس طرح گھریلو معیشت پر اثرانداز ہوتی ہے۔

ضعیف الاعتقادی اور ضبط تولید کی مخالفت کے باعث پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا مشکل معلوم ہوتا ہے جس کے لیے حکومت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مربوط منظم اور مدلل کوششوں کو فروغ دے۔ علماء کرام اور مذہبی سکالرز حکومتی تعاون کے ساتھ اس معاملہ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں کم عمری میں شادیاں عام ہیں، جو زچہ وبچہ کی صحت کے مسائل کے علاوہ آبادی کے بوجھ میں اضافہ کا بھی باعث بنتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف موجود قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

آبادی کا بڑھنا مشہور مورخ ابن خلدون کی نظرمیں!

مشہور فلسفی، مورخ ودانشور ابن خلدون کے مطابق بھی آبادی زیادہ ہو اور وسائل کم ہوں تو ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اس لیے ریاست کو آبادی پر کنٹرول رکھنا چاہیے۔

پاکستان میں آبادی کنٹرول کیوں نہ ہو سکی؟

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت مشرقی پاکستان کی آبادی 4.2 کروڑ جبکہ مغربی پاکستان کی آبادی 3.37 کروز تھی۔ لیکن آج بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ اور پاکستان کی آبادی 23 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں ایوب خان کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کا شعبہ قائم ہوا تھا جس پر اس وقت ایک طبقے نے بہت شور مچایا تھا، اس شعبہ کو بعد میں شعبہ بہبودآبادی کا نام دے دیا گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کو غیراسلامی قرار دے دیا گیا جس کی وجہ سے یہ ادارہ  تقریباً مفلوج ہوکر رہ گیا۔ ضیاء الحق کے بعد آنے والی حکومتیں بھی اس مسئلے سے اس وجہ سے آنکھیں چرا کر بیٹھی رہیں کہ ایک طبقہ اس کے خلاف سڑکوں پر نکل کر حکومت کے لیے پریشانیوں کا باعث بنتا ہے،یہی وجہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے لیے میڈیکل ذرائع پاکستان میں تقریباً ناپید ہیں۔ جبکہ پاکستان کے مقابلے میں چین، بنگلہ دیش اور بھارت نے اپنی اپنی آبادیوں کو کنٹرول کیا ہے جس کی وجہ سے معیشت سمیت ان کے پورے معاشرے پر بھی مثبت نتائج ثبت ہورہے ہیں۔ اب چین اپنے عوام کو ایک بچہ مزید پیدا کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک نے آبادی کنٹرول کر کے ثمرحاصل کیا!

جانور اور انسان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جانور کو تعلیم، رہن سہن،روزگار، صحت، انسانوں کی طرح شادی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ انسان کو ان سب کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے شعور کے خلیے عطاکر کے اشرف المخلوقات بنایا ہے، تا کہ وہ علم حاصل کر کے اور غوروفکر کے ذریعے کائنات کو تسخیر کر سکے، جیساکہ ترقی یافتہ ممالک جاپان، کینیڈا، جرمنی، فرانس، برازیل، اٹلی، برطانیہ، بھارت، امریکہ اورچین وغیرہ کررہے ہیں۔ ان تمام ترقی یافتہ ممالک نے علم اور غور و فکر کی بنیاد پر ترقی وخوشحالی کے دیگر کئی رازوں کے ساتھ اس راز کو حاصل کرکے کہ ’’وسائل کے دائرہ کار میں آبادی ہوتو ملک خوشحال اور ترقی یافتہ ہوتا ہے‘‘ اس پربھی مخلصی سے عمل کیا ہے۔ ان ممالک کی زیادہ نہیں صرف گزشتہ 70 سالوں کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو ترقی وخوشحالی میں ہرسال دنیا بھر کے دس بہترین ممالک میں آپ کو ان میں سے کئی ممالک نظر آئیں گے۔ ان ممالک کی طرح دیگر اور ممالک نے بھی اپنی اپنی آبادیوں پر کنٹرول کیا اور آہستہ آہستہ چند ممالک کے ساتھ ساتھ اب وہ بھی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ہونے کی بدولت ان میں سے کئی ممالک نے لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک میں شہریت دے رکھی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ان ممالک میں غیرقانونی تارکین وطن آباد ہیں، اس کے باوجود ان کی ترقی کی رفتار بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔

اسلامی ممالک نے آبادی کو کیسے کنٹرول کیا

پاکستان کے مقابلے میں دیگر اسلامی ممالک نے افزائش آبادی کو قابو میں لانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں ہمارے خطے میں ہی واقع بنگلہ دیش اور ایران خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی 1971ء میں تقریباً سات کروڑ 10 لاکھ تھی جبکہ پاکستان کی آبادی 1972ء میں چھ کروڑ 50لاکھ کے قریب تھی۔ آج بنگلہ دیش کی آبادی جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ 17 کروڑ کے قریب ہے اور سالانہ افزائش کی شرح ہم سے انتہائی کم ایک فیصد ہے۔ ایران میں بھی آبادی میں اضافے کی شرح میں پچھلے 30 برس میں کمی کی رفتار انتہائی تیزرہی ہے۔ 1980ء میں یہ شرح فی خاتون 6.5 فیصد بچوں کی پیدائش تھی جو 2017ء میں حیران کن 1.6 فیصد پر آگئی ہے۔

آبادی کا پھیلاؤ ملک کی سلامتی کیلئے بھی خطرہ

آبادی کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ پاکستان کی معاشی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلہ کے حل کی طرف جلد از جلد اور سنجیدہ توجہ دی جائے۔ لیکن ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے اور اب بھی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہمارے محدود قدرتی وسائل کی مکمل نابودی کے خطرات پر قابو پانے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کہ ہماری قیادت اس پر سنجیدگی سے توجہ دے۔ آبادی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہم بنگلہ دیش اور ایران کی کامیاب پالیسیوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

آبادی کنٹرول کرنے کیلئے بنگلہ دیشی ماڈل کا استعمال کیا جائے!

پاکستان سے علیحدگی کے فوری بعد بنگلہ دیش نے خاندانی منصوبہ بندی کے ایک کامیاب پروگرام کا آغاز کیا جس کا بنیادی پہلو یہ تھا کہ منصوبہ بندی کی خدمات گھر کی دہلیز پر فراہم کی جائیں اور اور اس کے لیے تربیت یافتہ نو جوان خواتین کو بھرتی کیا گیا۔ مذہبی رہنماؤں کی مدد بھی لی گئی۔ اس کے ساتھ جگہ جگہ خاندانی منصوبہ بندی کے دیہی کلینک قائم کئے گئے اور رابطہ ور رسائی کے مختلف طریقوں سے بھر پور آ گہی پیدا کی گئی۔ اسی طرح ایران میں مذہبی اداروں اور معروف علما کو ساتھ ملایا گیا اور منصوبہ بندی کے طریقوں تک مفت اور آسان رسائی بڑھائی گئی۔ شادی شدہ جوڑوں کو مشاورت فراہم کی گئی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے منصوبہ بندی کے بارے میں آگہی پیدا کی گئی۔ ان مستند اور کامیاب طریقوں پر عمل کرتے ہوئے پا کستان میں بھی اس چیلنج کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے اور اس مہم میں جدت پیدا کر کے اسے زیادہ قابل قبول بنایا ہو سکتا ہے۔

اس پروگرام کو کا میاب بنانے اور اس کی زیادہ سے زیادہ قبولیت کے لیے ہر خاندان کی مناسب مالی امداد کا وعدہ بھی ایک موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس خوفناک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں خطیر وسائل مہیا کرنے ہوں گے اور اگر کچھ اداروں کے اخراجات کم بھی کرنے پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جو ملک کی ترقی سلامتی اور آئندہ نسلوں کی خوشحالی کے لیے از حد ضروری ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کو کیسے روکا جائے !

حکومت کو چاہیے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی روک تھام کیلئے پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی وزارت ازسرنو تشکیل دے، ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے تحت خاندانوں کی مالی امداد کو شرح پیدائش میں کمی سے مشروط کیا جائے ،کم بچے رکھنے والے خاندان کے سربراہ کو مراعات اور روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جائے ، آبادی کو کم کرنے کے لیے ہمیں مختلف پروگرامز لانچ کرنے کی ضرورت ہے، اب چونکہ غریب آدمی کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے اور ملک کے لیے کیا بہتر ہے، اس لیے ہمیں غریب آدمی کو Insentive دینا چاہیے کہ جس کے 2 یا اس سے کم بچے ہوں گے حکومت انہیں راشن کارڈ دے گی، یاماہانہ وظیفہ دے گی یا ان کی سکولنگ فری ہوگی یا علاج معالجہ کی سہولت فری ہوگی وغیرہ۔اگر کسی کے ہاں تیسرا بچہ پیدا ہو گیا تو وہ ان سہولیات سے محروم ہو جائے گایا حکومت ایک پیج متعارف کروائے جس کے مطابق حکومت ہر دو یا ایک بچے والے خاندان کو ماہانہ دس ہزار روپے وظیفہ دے گی۔ ایسا کرنے سے عام آدمی چھوٹے خاندان کی اہمیت کو سمجھے گااور اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر اچھا شہری بنائے گا،جو اس ملک کے لیے بوجھ بننے کے بجائے کارگر ثابت ہو۔

عوام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت

عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ دستیاب وسائل کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور اتنے کم وسائل میں دنیا کی آبادی اگر اسی تیز رفتاری سے بڑھتی چلی گئی تو آنے والی نسلوں کی زندگی گزارنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اگر بنیادی سہولتیں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور نکاسی آب کی موجودہ سہولیات 20 کروڑ آبادی کے لیے ناکافی ہیں تو آبادی دوگنا ہونے پر کیا ہوگا؟ اس صورتحال کا پوری دنیا کو ہی سامنا ہے، جہاں وسائل کا بے دریغ استعمال ہور با ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت

مانع حمل ادویات اور خاندانی منصوبہ بندی کے استعمال کو فروغ دینا بہت اہم ہے، خا ندانی منصوبہ بندی خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ انہیں آزادانہ فیصلہ کرنے کے قابل بناتی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کے نتیجے میں صحت کو براہ راست فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

بہت سی پاکستانی خواتین کے حمل کے دوران ماں اور بچے دونوں کے لیے صحت کے اہم خطرات شامل ہیں۔ اگر حمل کو روکنے والی ادویات کا استعمال میں اضافہ ہوگا تو غیرارادی حمل کی تعداد اور غیرمحفوظ اسقاط حمل، زچگی کی اموات میں کمی آئے گی۔

آبادی کنٹرول کرنے کے لیے خواتین کو باشعور بنانے کی ضرورت

وہ خواتین جو اپنے بچوں کی تعداد اور وقت کو کنٹرول کر سکتی ہیں وہ تعلیمی اور معاشی مواقع سے بہتر فائدہ اٹھا سکتی ہیں، اپنے اور اپنے خاندانوں کے مستقبل کو بہتر بناسکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ’’کنٹرول آبادی پالیسی‘‘

بڑھتی ہوئی آبادی مسائل کو بڑھائے گی، اسی سوچ کے تحت 1973ء سے اقوام متحدہ نے کنٹرول آبادی کو ایک عالمی پالیسی بنایا ہوا ہے۔ آبادی میں تیزرفتار اضافے کی شرح چونکہ ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ رہی ہے اس لیے ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی ہیں، قرض وترقیاتی فنڈ کیلئے تخفیف آبادی کے اہداف کو بطور شرط منوایا جاتا ہے۔ اس لیے آج ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بڑھتے ہوئے مسائل کی بڑی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔ یورپی ممالک نے بھی اپنی آبادی کو قابو میں رکھا اور آج وہاں وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل ہم سے کہیں بہتر نظر آتا ہے۔

نوجوانوں کی آبادی سے استفادہ کیا جائے!

پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پرمشتمل ہے، ان نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں اور تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا جائے تو ملک کی ترقی میں ان کا کردار بہت اہم اور فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بہتر استعمال سے معیار زندگی بلند ہونے کی امیدیں پیدا ہوں گی اور پاکستان کے ہر طبقے کو بنیادی سہوتوں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت ، مناسب خوراک ، رہائش، ذرائع آمدورفت اور نکاسی آب و غیرہ کی دستیابی ممکن ہوگی تاہم اس کے لیے ابھی سے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت بنیادی کردار ادا کرے!

عالمی ذرائع کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ناخواندگی، غربت، انتہاپسندی، بدعنوانی، دہشت گردی اور آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ملکی وقومی مفاد میں دیکھا جائے تو کوئی ذی شعور پاکستانی اس چشم کشا حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتا کہ پاکستان کا داخلی استحکام انتشار کا شکار ہے اور اگر پاکستان میں آبادی میں مسلسل تیزرفتار اضافے کو روکا نہ گیا اور اس پر یونہی پردہ ڈالا جاتا رہا تو آگ کی طرح تیزی سے پھیلتی تباہی معاشرہ کا مقدر ہوگی۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی روک تھام کیلئے پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی وزارت ازسرنوتشکیل دے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے تحت خاندانوں کی مالی امداد کو شرح پیدائش میں کمی سے مشروط کیا جائے اور کم بچے رکھنے والے خاندان کے سربراہ کو مراعات اور روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جائے تاکہ آبادی کے جن پر قابو پایا جاسکے۔

ہمایوں سلیم 32 سال سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، تمام بڑے قومی اخبارات کے لیے خدمات انجام دینے کا اعزاز رکھتے ہیں، میگزین ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی اداروں میں کام کرنے کے بعد ان دنوں سٹی چینل لاہور رنگ کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ اردو کرانیکل کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین