Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

اسلام آباد دل لگانے کی جگہ نہیں

Published

on

مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں 906 مربع کلومیٹر پرپھیلا خوبصورت اسلام آباد وطن عزیز پاکستان کا دارالحکومت، قدرت  کی نیرنگیوں کا شاہکار اور دلکشی میں بے مثال، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا بھر کے سیاحوں کی خواہش ہو گی کہ وہ اسلام آباد دیکھیں۔

نیا بنا شہر اسلام آباد، جس کی عمر صرف 62 سال ہے،خوبصورتی کے اعتبار سے لاجواب ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ  اس کے موسموں، پھلوں، رنگوں اور وفا کا اعتبار نہیں۔ موسم اور رنگ انسان کی طبیعت، عادات اور رویوں پر اثرانداز ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وسطی پنجاب کے میدانی علاقوں کے لوگوں کی طبیعت میں ٹھہراوٗ ہے، پہاڑی علاقوں کے لوگ جذباتی ہوتے ہیں اور صحرا کے باسی وفا کی علامت اور تشنگی سے بھرے ہوتے ہیں۔

میدانی علاقے کا موسم جلدباز نہیں ہوتا۔ پہاڑ کا موسم بہت شدید ہوتا ہے اور صحرا میں موسم ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ لیکن اسلام آباد سب سے مختلف ہے اسلام آؓباد کے موسم، رنگ اور درختوں نے یہاں کے باسیوں اور حکمرانوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

اسلام آباد میں ہرنیا آنے والا فاتحانہ انداز میں آتا ہے، اسے سب ہرا بھرا دکھتا ہے، حکومت کے خواب دیکھتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کا ہما جس کے سر بھی بیٹھا، وہ ابھی حکومتی امور کو سمجھنے بھی نہ پایا کہ نکال باہر کردیا گیا۔

کوئی تو رات کو حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے رات گئے بستر پر لیٹا لیکن صبح ہونے سے پہلے سڑک پر لا کھڑا کر دیا گیا۔ جنرل ضیا سے پرویز مشرف تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان تک، ہر ایک کو اس شہر کی بے اعتباری کا دکھ اٹھانا پڑا۔ یہاں 2 تہائی اکثریت لے کر مضبوط ترین وزیراعظم کی حیثیت میں 3 بار میاں نواز شریف آئے، کبھی 2 تو کبھی ڈیڑھ سال حکمران رہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ 2013 میں مسلم لیگ ن  بڑے بڑے برج الٹ کر اقتدار تک پہنچی،2 تہائی اکثریت کے ساتھ مضبوط ترین حکمران نواز شریف کے اوسان اس وقت خطا ہو گئے جب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہوتے ہوئے 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری کارکنوں کو لے کر پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ گئے۔ تمام تر طاقت ہونے کے باوجود حکومت اتنی بے بس نظر آئی کہ پارلیمنٹ کے جنگلے ٹوٹے،پی ٹی وی پر حملہ ہوا، پولیس افسروں کی سرعام پٹائی ہوئی، سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندے کپڑے دھو کر لٹکائے گئے، ڈی چوک میں قبریں کھودی گیئں اور 126 دن شاہراہ دستور سے کوئی جج گزر سکا نہ کوئی پارلیمنٹرین۔

اسلام آباد کا موسم اچانک یوں تبدیل ہوا کہ چند سیکڑے مظاہرین جو خواہش کرتے منٹوں میں پوری ہوتی،حکومت اور پارلیمنٹ کا یہ حال تھا کہ طاقت،غصہ اور بے بسی کے یوں مجسم ہونے کی مثال حالیہ تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی۔ پھر سب نے دیکھا کہ مضبوط ترین وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے ایک مبہم حکم پر مکھن سے بال کی طرح نکال دیا گیا۔

لامحدود اختیارات لے کر آنے والے پرویز مشرف کو بھی اسلام آباد کے بے اعتبارسیاسی ماحول نے سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا۔ محترمہ بے نظٰیر بھٹو شہید جو چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جاتی تھیں اور ملک کے کسی بھی شہر یعنی لاہور یا کراچی میں جب جلوہ افروز ہوئیں لاکھوں افراد نے استقبال کیا، شہر اقتدار اسلام آباد میں 2 مرتبہ حکمران بن کر آئیں اور اس  بے اعتبار، سازشی ماحول کا شکار ہوگئیں۔

اس خطے پر 3 بڑے رہنماوں کا ناحق قتل کا وبال بھی ہے۔ لیاقت علی خان کو اسی اسلام آباد کے پڑوس میں قتل کیا گیا، ذوالفقارعلی بھٹو کا عدالتی قتل بھی اسی زمین بے اعتبار پر ہوا اور بے نظیر بھٹو بھی اسی خطے میں قاتلوں کا نشانہ بنیں۔

سن 2000 سے راقم بھی اسلام آباد کی گلیوں کی خاک چھان رہا ہے میں نے ان 22 برسوں میں یہاں کے موسم میں ٹھہراؤ نہیں دیکھا، رویوں میں مٹھاس کے بجائے بے رخی دیکھی، آگے بڑھ جانے کی ہوس دیکھی۔ دوسرے کو مار کر گرا کر بھاگ جانے کی روش دیکھی۔ احسان فراموشی تو شاید یہاں آنے والوں میں رچ بس جاتی ہے۔ زبانوں پر وفا کے ترانے اور کردار سے بے وفائی کی مثالیں رقم ہوتی ہوئی دیکھیں۔ حکمرانی کا تاج پہنتے ہی قول و فعل میں تضاد دیکھا، ملک چلانے والے بیوروکریٹس جو ملک بھر سے یہاں آتے ہیں نہ جانے کیوں ان میں میدانی علاقوں جیسی وفا نہیں رہتی، احساس نہیں رہتا پتہ نہیں کیوں پہاڑوں میں رہنے والے جفاکش اور وطن پر مر مٹنے والے پڑھ لکھ کر اسلام آباد کے پاک سیکرٹریٹ میں امور حکومت چلاتے اس بے اعتبار شہر کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں، نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ صحرا میں رہنے والا قدرت کی نگہبانی کرنے والا اسلام آباد میں آ کر مصنوعی رنگوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

میں نے دیکھا کہ میدان پہاڑ اور صحرا کے لوگ دن رات کر کے اپنے نمائندے چنتے ہیں، تا کہ وہ اسلام آباد جا کر ان کی حالت بدلیں گے، ملک کو سنواریں گے، مسائل سے نکالیں گے لیکن وہ عوامی نمائندے اسلام آباد آتے ہیں پھر پتہ نہیں کون سا جادو ان کے حواس گم کر دیتا ہے وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے کرتے قومی حمیت بھول جاتے ہیں، صرف ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر نہ جانے کیوں ان کی عقل پر قومیت کے بجائے خود غرضی چھا جاتی ہے میں نے دیکھا کہ سندھ دھرتی اور اولیا کی سرزمین ملتان سے تعلق رکھنے والے جری سپوت جب اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے تھے ، ادھر رات کے اندھیرے میں کوئی دشمن ملکی سرحد پار کر کے قلب میں جارحیت کر کے محفوظ چلا جاتا ہے اور اسلام آؓباد میں بیٹھے حکمران اس حرکت کو گریٹ وکٹری قرار دیتے رہے۔

سب کو یاد ہو گا کہ 23 سال جدوجہد کرنے والا وطن کا ایک سپوت 2018 میں حکمران بن کر اسلام آباد آیا اور پھر سب نے دیکھا کہ اس شہر کے سحر نے اسے جکڑ لیا اور اس نے ملک و قوم اور عوام کی خدمت کے بجائے مخالفین کو مارنے، پکڑنے، جیلوں میں ڈالنے میں پونے 4 برس گزار دیے، شائد وہ یہ سوچ کر آیا تھا کہ ابھی بہت وقت ہے پہلے مخالفین کو ختم کرلوں پھر کام کروں گا۔ لیکن پھر اس نے بھی دیکھا کہ اسلام آباد کے موسم اور تیور قابل بھروسہ نہیں۔ صرف ایک ماہ میں ایوان وزیراعظم سے بے دخل ہوا اور لیلائے اقتدار کے لیے اب خاک چھانتا پھرتا ہے۔ مقدموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس کا مسلسل پیچھا کر رہا ہے، لاکھوں کارکنوں کا ہجوم رکھنے والا آج اکیلا رہ گیا۔

10 سال کی حکومت کا خواب دیکھ کر اسلام آباد آنے والا عمران خان بنی گالا میں اپنی رہائش گاہ سے بھی ڈرتا ہے۔ غرض اس شہر اقتدار کی بے اعتباریوں پر جتنا لکھا جا ئے کم ہے، موسموں کا حال جاننے والے کہتے ہیں کہ اسلام آؓباد دل لگانے کی جگہ نہیں جب بھی آنے والے یہاں دل لگانے کی غرض سے آئیں گے پریشان ہوں گے۔ یہ خطہ ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر فرض شناسی کا تقاضا کرتا ہے۔ فرض ادا کریں اور آنے والے کو راستہ دیں، اسی میں ملک و قوم اور آنے جانے والوں کی بھلائی ہے۔

میاں شاہد گزشتہ 22سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ پرنٹ ،الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ میاں شاہد نے اس دوران سیاست،کرائم،کورٹ،ماحولیات،بین الاقوامی امو،خارجہ امور اور سماجی امور پر تحقیقاتی صحافت کی اور بیرون ملک تحقیقاتی پیپر بھی پڑھے۔رونامہ کائنات اور روزنامہ مسلمان میں چیف رپوٹر اوربیوروچیف ،روزنامہ تکمیل میں ایڈیٹر کے ایڈیٹر کے فرائض نبھائے۔جی این این ٹی وی کے بیوروچیف ہیں ۔4 بڑے ٹی وی چینلز کی لانچنگ ٹیم کا رکن ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔اس عرصے میں وکلا تحریک،2005 کا زلزلہ،2010 کا سیلاب،ہنزہ میں عطاآباد میں موسمیاتی سانحہ،بے نظیر بھٹو کی شہادت،ملک میں دہشت گردی کی لہر،معاشی ،سیاسی اور آئینی بحرانوں کی کوریج کی اور تحقیقاتی اسٹوریز شائع کیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین