Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

الیکشن 2023

پاکستان کا اصل بحران:انتخابات یا آئی ایم ایف

Published

on

اس وقت پاکستان میں مختلف بحرانوں کی بات کی جا رہی ہے کچھ لوگوں کی رائے میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ انتخابات کا وقت پر نہ ہونا ہے۔کچھ اس سے اختلاف رکھتے ہوئے اسے معیشت سے جوڑتے ہیں اورپاکستان آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہونے سے پیدا حالات کو ایک بڑا بحران قرار دے رہے ہیں۔ایک محدود طبقہ عدالتی یا آئینی مسائل، جواس وقت حکومت کو گھیرچکے ہیں،کو بھی بحران سے تشبہہ دے رہا ہے۔ان بحرانوں کی شروعات کب،کس طرح اور کن وجوہات کی بنا پر ہوئی؟ یہ ہم سب جانتےہیں، چاہے وہ سیاسی جماعتوں کے مفادات ہوں یا پھراسٹیبلشمنٹ کا ماضی میں مخصوص سیاسی جماعتوں کی جانب جھکاؤ، اوراس کے لئے پولیٹیکل انجینئرنگ ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ بحران چند ماہ میں نہیں بلکہ برسوں کی محنت کے نیتجے میں  نمودارہوئے ہیں۔

گذشتہ ایک سال سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی بات ثابت نہیں ہوسکی، جیسا کہ کچھ حلقے یہ دعویٰ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انتخابات وقت پر نہ ہونے سے ملک میں کسی طوفان کی آمد کی پیشگوئی اور واویلا جاری ہے لیکن اب تک ملک میں طوفان نہیں آیا۔ پی ڈی ایم حکومت چند ماہ کے بجائے مدت پوری کرنے کا عزم تو بار بار ظاہر کرتی ہے لیکن کوئی چمتکار نہیں دکھا سکی۔اسحاق ڈار کو معاشی جادوگر کے طور پر پیش کیا جاتا رہا لیکن وہ بھی معیشت کو اب تک سدھار نہیں پائے۔

پاکستان تحریک انصاف حکومت سے نکل کر کوئی انقلاب نہیں لاسکی،عدلیہ ایک کے بعد ایک فیصلے سے بھی انتخابات نہیں کرواسکی۔الیکشن کمیشن جیسا با اختیار ادارہ اپنی رٹ قائم نہیں کرسکا۔

غرضیکہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کے حصول کی تگ و دو میں ہیں اور ساری لڑائی نوراکشتی لگنے لگی ہے۔ اب تک تمام تر تگ و دو اور نورا کشتی کسی ایک فریق کو بھی مطلوبہ ہدف تک پہنچا نہیں پائی۔

چند ماہ پہلےانتخابات کے عمرانی بیاینے نےماحول میں جو گرمجوشی پیدا کی تھی وہ بھی سرد پڑچکی ہے کیونکہ اس بیانئے نے گرما گرم بحثوں کو تو جنم دیا لیکن یہ گرمی سڑکوں پر سرگرمی کی صورت دکھائی نہیں دی۔پاکستان تحریک انصاف بھی اب بخوبی سمجھ گئی ہے کہ کھیل سڑکوں پر نہیں مذاکرات کی میزپر اور ایوانوں میں کھیلا جاسکتا ہے، کچھ عرصہ پہلے تک پی ٹی آئی ناز نخرے دکھلاتی، اٹھلاتی حسینہ تھی اور اسٹیبلشمنٹ اس کی ناز برداری کرتی تھی لیکن تحریک انصاف اپنی پالیسیوں اور فیصلوں کے باعث طاقتور ایوانوں کے دروازے خود پر بند کرچکی ہے اور اب ایک اجڑی مانگ والی بے در و بے گھر مظلومہ کی مانند ہے۔

منصفی کے منصب پر بیٹھے کچھ افراد اس اجڑی مانگ والی مظلوم حسینہ سے ہمدردی رکھتے ہیں اوریہ ہمدردی کبھی کبھی عشق کی حدوں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔ اب معاملہ کچھ یوں کہ ہے جیسے کسی محلے میں نئی نئی بیوہ کے عاشق نمودار ہوتے ہیں تو ساتھ ہی کچھ سیانے بھی ہوتے ہیں جو اس تعلق کو، جو یکطرفہ ہو یا دوطرفہ، پروان چڑھنے سے ہی ازخود نوٹس لے کر ختم کرا دیتے ہیں، ایسا ہی کچھ چند روز پہلے ہوا اور ملکی سلامتی کے ذمہ دار یہ پیغام دے چکے ہیں کہ یہ رومانس بند کمروں میں تو چل سکتا ہے لیکن اس پورا ملک اس رومانس کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔

اس پیغام کے بعد منصفوں اور حکمرانوں کے رویوں میں تبدیلی نظر آتی ہے۔اسی لیے اب منصفوں نے دبے لفظوں میں کہنا شروع کر دیا ہے کہ معاملات سیاسی ایوانوں میں طے کرنا بہتر ہے۔ اسی لیے عدالت نے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی راہ سمجھائی۔

مذاکرات پچھلے ہفتے سردمہری کے ساتھ شروع ہوئے تھے لیکن رویوں کی تبدیلی کے بعد حکومت نے نئے عزم کے ساتھ مذاکرات کا یقین دلایا اور منصف مان گئے،تحریک انصاف کو اب بامر مجبوری ہی سہی، مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑے گا کیونکہ اب منصف کھلے بندوں رومانس سے دستبردار ہوتے نظر آتے ہیں۔

موجودہ حکومت ہو یا پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کسی ایک کو بھی حالیہ بحرانوں کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جا سکتا۔یہ حقیت ہے کہ 90 روزمیں انتخابات کا پی ٹی آئی کا مطالبہ آئینی طور پر درست ہے مگر جس طرح زبردستی دو صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل کی گئیں وہ بھی درست نہیں تھا۔ صوبوں میں  مرحلہ وار انتخابات اور پھر جنرل الیکشن،یعنی پورا سال انتخابات کا سلسلہ جاری رہے، یہ بھی موجودہ معاشی حالات میں قابل عمل حل نہیں۔بیچ کا راستہ یہی ہے کہ انتخابات ایک ہی وقت پرہوں اوروہ وقت وہی  ہے جب آئی ایم ایف اوردوست ممالک سے معاشی معاملات طے ہوجائیں۔ معیشت کی کمرسیدھی اورنبض رواں ہوسکے۔

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت، انتخابی میدان میں اتری ہر حکومت کی طرح چاہتی ہے کہ بجٹ میں کچھ عوام دوست اقدامات اٹھائے جا سکیں تاکہ وہ عوام کا سامنا کرنے کے قابل ہو اور الیکشن میں مقابلے کی حقیقی فضا بن سکے۔

اس صورت حال میں صاف نظر آرہا ہے کہ پی ڈی ایم کا حکمران اتحاد تحریک انصاف کو مقدمات میں الجھائے رکھنے کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہے گا اور تحریک انصاف کو بھی ووٹر کو مطمئن رکھنے کے لیے کسی نہ کسی سرگرمی اور احتجاج کی حکمت عملی پر انحصار کرنا پڑے گا۔

ثنا مرزا 2003ء سے میڈیا خصوصا صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ایک دہائی سے زیادہ نامور ادارے جیو جنگ گروپ کاحصہ ہونےکے علاوہ وآئس آف امریکہ(واشنگٹن)، 92نیوز، 24نیوز، ریڈیو پاکستان اور متعدد ایف ایم ریڈیوز میں خدما ت انجام دے چکی ہیں

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین