کالم
دہشتگردی، ایڈہاک پالیسیوں کا نتیجہ
افغانستان کے وزیر خآرجہ امیر متقی پاکستان آئے توپاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری بھٹو اور چینی حکام سے ملنے سے زیادہ ان کی جو ملاقاتیں ہوئیں وہ اس سے کہیں زیادہ اہم تھیں ، عسکری حکام سے جب ان کی ملاقات ہوئی تو انہیں ان شواہد کی بھی فہرست تھما دی گئی جسے سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے،یقیناً اس میں شک و شبہ والی بات نہیں۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ 20ماہ قبل جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو بظاہر کمزورنظر آنے والی پاکستان تحریک طالبان کے دم میں بھی دم آیا اوروہ افغانستان میں خود کو مزید مضبوط محسوس کرتے چلے گئے اور اس قدرمضبوط ہو گئے کہ ایک بار پھر انہوں نے پاکستان کا رخ کر لیا، گو بارڈرز کو اب محفوظ بنا دیا گیا ہے لیکن ان تمام علاقوں میں جہاں دہشت گردی کے خلاف ماضی میں جنگ لڑی گئی، آپریشن کئے گئے وہاں ایک بار پھر ٹی ٹی پی کا ابھرنا کوئی انہونی بات نہیں۔
دہشتگردی کو اندر سے سپورٹ
دہشتگردی کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجوہات بہت ہیں ،ایک بڑی وجہ تو وہ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں ہیں جو بظاہر خود کو دہشت گردی کے مخالف بتاتی ہیں مگر عملاً وہ ریاست کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں، ایسے لوگوں کے خلاف یہ سوچ کر کارروائی نہیں کی جاتی کہ یہ لوگ ایک خاص سوچ کے حامل ہیں، چونکہ ان کی قیادت کرنے والے مقبول لوگ ہیں اس لئے بھی ان کا قافلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، وہ کہیں امن کا نعرہ لگا کر، تو کہیں اداروں کے خلاف آواز اٹھا کر اپنے حامیوں میں اضافہ کر لیتے ہیں اور عام شہری انہیں ان کے حقوق کے علمبردار سمجھ کر ان کی پیروی کرتے ہیں۔
بعض سیاسی جماعتیں کھلے عام ایسے گروپوں کو سپورٹ کرتی ہیں، یا پھران کی اخلاقی حمایت کرکے ووٹ بینک بنانے کی کوشش کرتی ہیں،ایسے میں ٹی ٹی پی کے لئے ان گروپوں کے کچھ لوگوں کو بھٹکا کرساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہیں۔
ویسے بھی ٹی ٹی پی کے جو بڑے کمانڈر 15سال قبل ان علاقوں میں جوبن پر تھے اب وہ اس پوزیشن میں نہیں رہے، ان کی جگہ اب نوجوان عسکریت پسند لے رہے ہیں، یقیناً ان کی قیادت کرنے والے پرانے کمانڈر ہوں گے لیکن عملی کارروائی کے لیے انہیں نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے جوعام اور گمراہ کن تاثر کے مطابق سرحد پار سے نہیں آتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جن علاقوں میں آپریشن ہوئے وہاں تعلیمی ادارے کھل گئے اور صحت کے مراکز بنائے گئے مگر اس سے اس نئی نسل کی سوچ نہیں بدلی جن کے رشتہ دار دہشت گردی میں نشانہ بنے یا انہیں دہشت گرد کی حیثیت سے مارا گیا، ایسے لوگ کی معاشی حالت تبدیل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات نہیں ہوئے اور ان مرنے والوں کے بچے بھی جواں ہوتے ہوتے انہی دہشت گردوں کی صفوں میں شامل ہوتے گئے۔
افغان طالبان، ٹی ٹی پی کی سوچ میں یکسانیت
امیر متقی سے جب یہ پوچھا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں اور وہیں سے وہ آکر یہاں کارروائی کرتے ہیں تو انہوں نے یہ تاثر دیا کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان الگ الگ ہیں ۔
یہی وہ بات ہے جو ماضی میں مولانا فضل الرحمان بھی کیا کرتے تھے اور بعد میں جو لوگ ان کے کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے وہ سب اسی سوچ کے قائل تھے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک موقف ایک وقت میں ہماری حکومت کا بیانیہ ہوتا ہے،جب حکومت اور چہرے بدل جاتے ہیں تو بیانیہ بھی وقتی طور پر بدل جاتا ہے، اورتو اورمیڈیا میں بغیر کسی علم کے تجزیہ دینے والے یہ کہا کرتے تھے کہ افغان طالبان جہاد کر رہے ہیں اور ٹی ٹی پی را اور دوسرے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے کارندے ہیں، حالانکہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گاکہ کہ یہ آگ افغانستان کی سرحدوں سے ہوتے ہوئے سابق قبائلی علاقوں میں اس لئے پھیلی کہ ان علاقوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اس لئے تو یہی خطہ اس جنگ کا ایندھن بنا۔
ہماری وزارت خارجہ ایسے ہی بیانیہ پرعمل پیرا ہے جس میں وقت کے ساتھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے ، ورنہ کون نہیں جانتا کہ ٹی ٹی پی کے بانی رہنما سب ماضی میں افغان طالبان کا ہی حصہ رہ چکے ہیں، وہ سب افغانستان کے ملا عمرکو اپنا لیڈر مانتے تھے اور اب بھی ان کا نام انتہائی احترام سے لیتے ہیں، شروع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اغاز ہوا، تو کالعدم تحریک طالبان اسی بنیاد پرامریکی حملے کی مخالف تھی، پاکستان نے افغان طالبان کے خلاف مغربی اتحادیوں کا ساتھ دیا تو یہ لوگ امریکہ کی دشمنی میں پاکستان کی ریاست کے دشمن ہو گئے اور کارروائیاں شروع کر دیں، ان کا یہ خیال تھاکہ اگر پاکستان ساتھ نہ دیتا تو امریکہ افغانستان پر حملہ کرنا تو کجاافغانستان میں داخل بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
پاکستان نے ان کے خلاف اس لئے فورس کا استعمال کی کہ انہوں نے القاعدہ اور افغان طالبان کو پناہ دی تھی۔ اب اگرٹی ٹی پی افغان طالبان سے مدد مانگے یا وہاں پناہ لے تو ظاہر ہے وہ افغانستان میں محفوظ پناہ دیں گے ،ایسے میں امیر متقی کا یہ موقف درست نہیں ہو گا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان میں پناہ نہ ملنے کی جھوٹی امیدیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان پاکستان آکر پاکستانی ریاست کے خلاف کبھی نہیں لڑے ان کی جنگ امریکہ کے خلاف تھی اور ٹی ٹی پی کی جنگ پاکستانی ریاست کے خلاف تھی ۔ لیکن ٹی ٹی پی امریکیوں کو بھی اپنا دشمن سمجھتی تھی اورسمجھتی ہے۔امیر متقی سے یہ پوچھا جائے کہ کیا ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نورولی، افغان طالبان کے امیر ملا ھبت اللہ کو امیرالمومینین نہیں مانتے؟اگر مانتے ہیں توافغان حکومت اپنے ملک میں ان کے خلاف کیوں کارروائی کرے گی؟ ان سے ایسا مطالبہ کرنا محض خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔
امیر متقی سے جب پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر کے خاتمے میں مدد دینے اور اپنی سرزمین کے استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے بارے میں بات کی گئی تو دراصل خارجہ پالیسی کی کمزوری کو ظاہرکی گئی۔
ان حالات میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ امیر متقی یہ یقین دہانی کہ وہ اپنی سر زمین پر ٹی ٹی پی کو پناہ یا محفوظ ٹھکانے نہیں دیں گے، تو ان کی بات کتنی قابل بھروسہ ہو گی؟افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو کیسے اپنی سرزمین سے نکال سکتے ہیں؟
امیر خان متقی کون ہیں؟
یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ امیر متقی کون ہیں؟متقی ان دس اشخاص میں سے ایک ہیں جنھیں ملا عمر نے نائن الیون کے واقعے کے بعد طالبان کی پہلی سربراہی کونسل میں شامل کیا تھا۔ اس وقت وہ نوجوان لیڈر ہونے کے باوجود طالبان کے وزیر برائے اطلاعات و ثقافت رہے اورعرصہ دراز تک وہ اسی کمیشن کے سربراہ رہے، ان کو دعوت و ارشاد کمیشن کا سربراہ مقرر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
اس بار طالبان جب افغانستان پر قبضہ کر رہے تھے تو اس وقت امیر خان متقی کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی تھی کہ وہ طالبان مخالفین کو دعوت دیں اوربغیر جنگ کے طالبان کا حامی بنائیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے زیرک لیڈر ہیں کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔ آج بھی ان کی کابینہ میں ان کے مخالفین بیٹھے ہوئے ہیں ۔
امیر متقی سے جب پاکستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے بات کی گئی تو متقی صرف ایک بات پر زور دیتے رہے کہ ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات سے ہی یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے ۔انہوں نے ایک بار پھر افغان حکومت کی جانب سے سہولت کاری کی پیشکش کی، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پالیسی ساز مذاکرات کی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ عمل ان کے حریف عمران خان کے دور میں شروع ہوا تھا، حالانکہ اس وقت انہیں عسکری قیادت کا تعاون بھی حاصل تھا، اگر ان کے ساتھ مذاکرات کے طریقہ کار میں کوئی خامی تھی تو اس طریقہ کار اور شرائط کو تبدیل بھی تو کیا جا سکتا ہے۔
آپریشن دہشتگردی مسئلہ کا حل نہیں
اگر آپریشن اس مسئلہ کا ہوتا تو پاکستان سے اب تک دہشت گردی ختم ہوچکی ہوتی، مگر اب سیکورٹی فرسز کے جوانوں کو ملک کی خاطرپہلے سے زیادہ قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں۔ اگر بزور ششیر امن قائم ہو سکتا تو امریکہ جیسی سپر پاور اوراس کے بڑے بڑے اتحادی افغانستان چھوڑ کر اسے طالبان کے رحم وکرم پر نہ چھوڑتے، وہی طالبان جن سے وہ دو ہائیوں تک لڑتے رہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرادری وہ وزیر خارجہ ہیں جن کے خیال میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات شجر ممنوعہ ہیں۔ اس ایشو پرایک مستقل پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو کسی پارٹی کی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی پالیسی ہو، مذاکرات غیر متعلقہ لوگوں سے کروانے کی بجائے اس میں متاثرہ لوگوں اور سٹیک ہولڈرز کے علاوہ وہ جماعتیں بھی شامل ہوں جنہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے قربانیاں دیں۔
بے شک کوئی جماعت حکومت کا حصہ ہو یا نہ ہو ، بھلے وہ جماعت کسی کو پسند ہو یا نہ ہو ، اس کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کم ہو یا زیادہ، اسے نمائندگی دینا پڑے گی، جب تک مذاکرات میں ایسے تمام لوگ شامل نہیں ہوں گے اور سب جماعتوں کو آن بورڈ نہیں لیا جائے گا نہ تو دہشتگردی ختم ہو گی اور نہ ہی کسی کوشش کو دہشت گردی کے خاتمہ کے لیےسنجیدہ کوشش سے تعبیر کیا جا سکے گا۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین7 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی