دنیا

بھارتی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ نے مہنگائی کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرادیا

Published

on

سام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کے لیے اب ریاست کی میاں  مسلم کمیونٹی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

’ میاں‘ بینادی طور پر ایک توہین آمیز اصطلاح تھی، جو آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ایک سیاسی حلقے کی جانب سے انہیں نسلی اور مذہبی بنیادوں پر کئی بار نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کمیونٹی پر وزیر اعلیٰ کے تازہ حملے کی اطلاع سب سے پہلے بی بی سی ہندی نے دی ہے۔

صحافیوں نے ہمنتا سے پوچھا تھا کہ گوہاٹی میں سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو کیوں چھو رہی ہیں، اس کے جواب میں  انہوں نے کہا،’وہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے اب سبزیوں کی قیمتیں بڑھا دی ہیں؟یہ میاں  لوگ  ہیں، جو سبزی مہنگے داموں پرفروخت کر رہے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا، گوہاٹی میں میاں  تاجر آسامی لوگوں سے سبزیوں کی زیادہ قیمتیں وصول کر رہے ہیں، جبکہ دیہاتوں میں سبزیوں کی قیمتیں کم ہیں۔ اگر آج آسامی لوگ سبزی بیچ رہے ہوتے تو وہ کبھی بھی اپنے ساتھی آسامیوں سے زیادہ قیمت نہ لیتے۔

ہمنتا نے صحافیوں سے یہ بھی کہا کہ وہ ذاتی طور پر فلائی اوور کے نیچے سبزی منڈیوں کو خالی کروائیں گے تاکہ ‘آسامی لڑکوں’ کو روزگار کے مواقع مل سکیں۔

اس وقت گوہاٹی کے فلائی اوور کے نیچے سبزیاں اور پھل بیچنے والے زیادہ تر لوگ میاں  برادری کے مسلمان ہیں۔

وزیر اعلیٰ  عید منانے کے لیے  پبلک ٹرانسپورٹ کے مسلم ڈرائیوروں کو بھی تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے نظر آئے۔

انہوں نے کہا، ‘ہم سب نے دیکھا ہے کہ عید کے دوران گوہاٹی شہر میں بسوں کی آمدورفت کیسے کم ہو جاتی ہے۔ کم بھیڑ دیکھنے کو ملتی ہے ،کیونکہ زیادہ تر بس اور کیب ڈرائیور میا ں برادری سے ہیں۔

اس سے قبل آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے صدر اور لوک سبھا ایم پی  بدرالدین اجمل نے کہا تھا کہ آسام میاں  برادری کے بغیر نامکمل ہے۔

اس کے جواب میں ہمنتا نے کہا کہ اجمل نے اس طرح کا تبصرہ  کر کے ‘آسامی کمیونٹی کی توہین’ کی ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version