تازہ ترین
ٹرمپ بمقابلہ بائیڈن : امریکی الیکشن خطرناک ہوگئے
اقوام متحدہ میں امریکا کی سابق سفیر نکی ہیلی ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ سے باہر ہو گئی ہیں اور ٹرمپ نامزدگی کے لیے میدان میں اکیلے ہیں جس کے بعد صدر کے لیے مقابلہ ایک بار پھر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہوگا کیونکہ امریکی سپریم کورٹ نے کولوراڈو کی اعلیٰ عدالت کی طرف سے ان کی نااہلی بھی متفقہ فیصلے کے ذریعے ختم کردی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 کے الیکشن کے نتائج بدلنے کی ’ مجرمانہ سازش‘ خفیہ دستاویزات غیرقانونی طور پر پاس رکھنے کے جرم، خواتین کی طرف سے نازیبا الزامات اور دیوانی مقدمات کے باوجود ناقابل یقین واپسی کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی دوسری مدت ان کی پہلی مدت سے بھی زیادہ ہنگامہ خیز ہوگی۔
ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں واپسی امریکی تاریخ کے سب سے خوفناک انتخابات کا آغاز ہے۔ ملک کے سیاسی، قانونی اور آئینی ضابطوں کو ایک ری پبلکن امیدوار کی جانب سے ایک سخت نئے امتحان کا سامنا ہے جو الیکشن کے دن سزا یافتہ مجرم ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ کی صدارت کی دہلیز پر واپسی دنیا بھر میں امریکی اتحایوں میں صدمے کی لہریں پیدا کرے گی اور یوکرین کے لیے بھی ایک وارننگ ہو گی، جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی شہپ پر اپنی سلامتی داؤ پر لگا کر جنگ لڑ رہا ہے۔
ٹرمپ امریکا میں ایک غیر روایتی صدارتی امیدوار کیوں ہے؟ کیونکہ وہ قوم کو کوئی امید دلانے یا اسے متحد کرنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ قوم میں تقسیم کے ذریعے دوبارہ قصر صدارت تک پہنچنا چاہتا ہے۔ کیپیٹل ہل ہنگامے کے بعد واضح ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے لاقانونیت کا بھی سہرا لے سکتا ہے،وہ مغربی جمہوریت میں ڈکٹیٹرشپ کی نادر مثال ہے،وہ سیاسی حریفوں سے بدلہ لینے کے اعلان کررہا ہے، وہ اپنے ذاتی مفادات کو قوم اور ملک کے مفادات کے ساتھ گڈ مڈ کر کے خود کو ایک مضبوط شخصیت کے طور پر پیش کررہا ہے۔
سپر ٹیوزڈے کی جیت کے بعد فلوریڈا میں مار اے لاگو ریزورٹ میں تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ نے امریکا کا ایک تاریک نقشہ پیش کیا اور کہا کہ ہم اپنی سرحدوں پر ایک تیسری دنیا کا ملک ہیں، اور ہم اپنے انتخابات میں تیسری دنیا کا ملک ہیں۔
جنوری میں نیو ہمپشائر میں ٹرمپ نے ایک تقریر میں یہی تاریک نقشہ یوں پیش کیا تھا ’ ہم زوال پذیر قوم ہیں، ہم ایک ناکام قوم ہیں‘۔ ٹرمپ نے مہنگائی، توانائی کی قلت کے مسائل بیان کرنے کے ساتھ تارکین وطن کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ شہر جرائم سے بھرے ہیںہوائی اڈوں پر ہجوم ہے اور وہ گندگی سے بھرے ہیں، وہ کون لوگ ہیں جوامریکا کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں، کون لوگ ہیں جو امریکا کو برباد کر رہے ہیں؟ تارکین وطن کے بارے میں ٹرمپ کا رویہ امریکا کو خوفزدہ کرتا ہے کیونکہ امریکا تو ہے ہی تارکین وطن کی ایک قوم، ٹرمپ امریکی خواب کی نہ صرف نفی کرتا ہے بلکہ امریکا کی ترقی کا سبب بننے والے تارکین وطن سے نفرت پیدا کرتا ہے۔
ٹرمپ کا امریکیوں کو امید اور اعتماد دینے کی بجائے ان کا اعتماد توڑ کر انہیں مایوس اور خوفزدہ کر کے اپنے پیچھے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنا اعتماد، اپنی قوت ارادی اور اپنی طاقت کھو چکی ہے۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنا راستہ کھو چکی ہے، 2024 ہماری آخری جنگ ہے۔ ہم ڈیپ سٹیٹ کو منہدم کر دیں گے، ہم جنگجوؤں کو اپنی حکومت سے نکال دیں گے- ہم گلوبلسٹوں کو نکال دیں گے، ہم مارکسسٹوں، کمیونسٹوں اور فاشسٹوں کو نکال باہر کریں گے۔ ہم جعلی خبروں کے میڈیا کو اکھاڑ پھینکیں گے، ہم دوبارہ ایک آزاد ملک بنیں گے۔
ٹرمپ کو یہ بیانیہ بنانے میں امریکا کی نہ ختم ہونے والی جنگوں، مالیاتی بحرانوں نے مدد دی، کووڈ وبا نے امریکی اداروں پر عوام کا اعتماد مجروح کیا،اور انتہائی دائیں بازو کے میڈیا نے 2020 کا الیکشن چوری ہونے کے دعووں میں ہوا بھر انتشار کو گہرا کیا،ری پبلکن ووٹر کے ذہن میں یہ بات پختہ کردی کہ بائیڈن کی جیت ناجائز تھی، اب آنے والے کئی برسوں تک امریکی سیاست داغدار ہی رہے گی۔
ٹرمپ نے اپنے خلاف مقدمات کو بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، انہوں نے مظلومیت کارڈ کھیلا، مقدمات کو سیاسی انتقام بتایا، اس کی کاروباری امپائر نے دھوکہ دہی اور فراڈ کیے لیکن وہ بھی سیاسی انتقام ٹھہرا، اس نے خواتین سے مجرمانہ دست درازی کی لیکن وہ مقدمات بھی ’ وچ ہنٹ ‘ قرار پائے، اس کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر چڑھائی کی لیکن وہ صدر بننے کے بعد ان ثابت شدہ مجرموں کو صدارتی معافی دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکا ٹرمپ کے دور میں اتحادیوں سے دور ہو رہا تھا، معیشت زبوں حال تھی، بائیڈن نے امریکی اتحادیوں کو دوبارہ اعتماد دیا،نیٹو کو متحرک اور فعال کیا، اس کے دور میں بیروزگاری کم ہوئی ہے، صنعتیں بہتر ہوئی ہیں، لیکن ٹرمپ کے دعووں اور مظلومیت نے بائیڈن کی کامیابیوں کو گہنا دیا ہے،سابق صدر کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے امکانات کافی ہیں کیونکہ بائیڈن ابھی تک بہت زیادہ غیر مقبول ہیں کیونکہ گروسری کی قیمتیں اور کرائے امریکیوں کو مایوس کر رہے ہیں،بائیڈن سرحدی بحران کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ٹرمپ ملک بھر میں تارکین وطن کی لہر کے خدشات کوابھار رہے ہیں۔
بائیڈن کی بڑھتی عمر بھی امریکی ووٹر کے لیے پریشابنی کا باعث ہے، بائیڈن کا دوسری مدت صدارت کے دوران کام کرنے کے قابل تصور کرنا مشکل تصور کیا جا رہا ہے،وہ اپنی پرجوش شخصیت کھو رہے ہیں۔
ٹرمپ کی الیکشن مہم کے مقابلے میں بائیڈن کے پاس ایک ہی وارننگ ہے کہ ٹرمپ نہ صرف جمہوریت کے لیے خطرہ ہے بلکہ وہ اسے تباہ کر دے گا۔ بائیڈن نے سپر ٹیوز ڈے کے خطاب میں کہا کہ ملک کے لیے میرا پیغام یہ ہے: امریکیوں کی ہر نسل کو ایک ایسے لمحے کا سامنا کرنا پڑے گا جب اسے جمہوریت کا دفاع کرنا ہوگا۔ ہماری ذاتی آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ ہر ڈیموکریٹ، ریپبلکن، اور آزاد کے لیے جو ایک آزاد اور منصفانہ امریکہ پر یقین رکھتا ہے: یہ ہمارا لمحہ ہے۔ یہ ہماری لڑائی ہے۔ ایک ساتھ، ہم جیتیں گے۔
بائیڈن کے اس نقطہ نظر نے 2020 میں کام کیا تھا اور وہ معمولی مارجن کی فتح کے ساتھ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس سے نکالنے میں کامیاب رہے لیکن 2022 کے مڈٹرم میں بائیڈن کا یہ بیانیہ کام نہیں آیا،اب بائیڈن کو اپنے ہی بیانیہ پر ریفرنڈم کا سامنا ہے۔
2024 کا صدارتی الیکشن امریکا کے اندر زندگی کو بدل سکتا ہے اور دنیا بھر میں عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے،اس الیکشن کا فیصلہ امریکی سوئنگ ریاستوں کے چند ہزار ووٹ ادھر یا ادھر ہونے میں ہے۔
ٹرمپ اگر الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ کیا کریں گے؟ اس بارے میں انہوں نے کوئی ابہام باقی نہیں رکھا،انہوں نے آئین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ایوان صدر کو ایسے اختیار دے جن پر کوئی قدغن اور چیک نہ ہو، جسے وہ اپنے دشمنوں کے خلاف "انتقام” کے لیے ذاتی جدوجہد میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وہ سرکاری محکموں میں سول سروس کو ختم کرنے اور سیاسی کارکن ان محکموں میں بھرنے کا عہد کر رہے ہیں، ٹرمپ کے بہت سے سابق عہدیداروں کو خدشہ ہے کہ وہ نیٹو سے نکل جائیں گے، دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بین الاقوامی نظام کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ غیر دستاویزی تارکین وطن ملک کے "خون میں زہر گھول رہے ہیں” اور بڑے پیمانے پر جلاوطنی اور حراستی کیمپوں کا وعدہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مخالفین کو "کیڑے مکوڑے” قرار دیا۔ منگل کی رات، ایک سابق صدر جو پہلے ہی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کو بھڑکا چکے ہیں، نے حامیوں کو متنبہ کیا کہ اگر وہ نومبر میں نہیں جیتتے، تو "ہمارے پاس کوئی ملک نہیں ہوگا۔”
ٹرمپ کا یہ بیان انتہائی خطرناک ہے، اگر ٹرمپ یہ الیکشن ہارے تو ان کے حامی 6 جنوری 2021 کی ہولناکی کو نہ صرف دہرا سکتے ہیں بلکہ اس کی شدت کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ری پبلکن پرائمری میں نکی ہیلی نے مضافاتی علاقوں میں ٹرمپ کو پیچھے چھوڑ دیا جو اعتدال پسند اور زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ریپبلکن ووٹروں کا گھر ہیں۔ یہ اہم ہے کیونکہ یہ وہ علاقے ہیں جو 2024 کے انتخابات کا فیصلہ کریں گے اور بائیڈن کو بہت سے جی او پی ووٹرز کو راضی کرنا ہوگا جو ٹرمپ سے بیگانہ ہیں اور جنہوں نے ہیلی کو ووٹ دیا تھا۔
لیکن صدر بایڈن کی اپنی کمزوریاں ہیں۔ کئی فلیش پوائنٹ ہیں، انہیں متنوع اتحاد بنانے میں مشکل ہے، وہ اتحاد جس نے انہیں 2020 میں فتح دلائی،حالیہ مشی گن پرائمری، جس نے غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے نمٹنے پر عرب امریکی، نوجوان اور ترقی پسند ووٹروں کی طرف سے منظم بغاوت دیکھی، بائیڈن کے اس امکان پر روشنی ڈالی کہ اس کے ووٹنگ بلاک کے اہم ارکان نومبر میں گھر رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر سمیت آزاد امیدواروں کا دباؤ، اہم سوئنگ ریاستوں میں بائیڈن کے مارجن کو مزید کم کر سکتا ہے اور ٹرمپ کو فتح دلا سکتا ہے۔
امریکیوں کو اب انتخابات کی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا جس سے بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین7 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی