Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

پہلی بار وفاقی کابینہ کا حصہ بننے والے نئے چہرے کون ہیں؟

Published

on

وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں چند ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اس سے قبل وفاقی سطح پر کبھی کابینہ کا حصہ نہیں رہے۔

محسن رضا نقوی

موجودہ حکومت سے قبل جب نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے محسن نقوی کا نام تجویز کیا گیا تھا تو اُس وقت بھی اُن کے نام کو چند حلقوں کی جانب سے ’غیر متوقع‘ قرار دیا گیا تھا اور تحریکِ انصاف نے ان کی نامزدگی پر اعتراض اٹھایا تھا۔اب محسن نقوی کی بطور رکن وفاقی کابینہ کو بھی ’غیر متوقع‘ کہا جا رہا ہے۔حال ہی میں محسن نقوی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بھی مقرر کر دیا گیا تھا۔

محسن نقوی بنیادی طور پر صحافی ہیں جنھوں نے لاہور میں پہلی مرتبہ ایک مقامی ٹی وی چینل سٹی 42 کے نام سے قائم کیا تھا۔ اس کے بعد وہ میڈیا میں اپنے کاروبار کو بڑھاتے گئے اور انھوں نے 24 نیوز کے نام سے ایک نیشنل چینل کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں ریجنل چینلز بنائے یا خریدے۔پاکستان سے باہر لندن میں بھی ان کا ایک چینل سٹی 44 کے نام سے قائم ہے۔

عبدالعلیم خان

سنہ 2011 سے سنہ 2018 کے دوران عبدالعلیم خان سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ان کے بارے میں ن لیگ کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ تحریک انصاف کی مالی طور پر کافی امداد کرتے ہیں۔سنہ 2018 میں اُن کا نام ابتدائی طور پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر بھی سامنے آیا لیکن قرعہ فال عثمان بزدار کے نام نکلا۔

سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل عبدالعلیم خان کو تحریک انصاف کا وسطیٰ پنجاب کا صدر بنایا گیا تھا اور اس انتخاب میں چند امیدواروں کو ٹکٹیں اُن کی سفارش پر دی گئی تھیں۔

تاہم عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد عبدالعلیم خان کو پنجاب کا سینیئر وزیر مقرر کیا گیا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ان کی عمران خان کے ساتھ تعلقات میں دراڑیں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔

سینیئر وزیر ہوتے ہوئے بھی انھیں قومی احتساب بیورو (نیب) نے مبینہ طور پر ’ذرائع سے زیادہ آمدن‘ کے الزامات کے تحت قائم کردہ مقدمے میں گرفتار کر لیا تھا۔ سیاسی ماہرین کے مطابق یہیں سے اُن کے عمران خان کے ساتھ تعلقات بگڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس کے بعد سنہ 2022 میں علیم خان باقاعدہ طور پر اُس وقت کے ’فارورڈ بلاک‘ میں شامل ہو گئے جس میں جہانگیر ترین کی سرپرستی میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ تاہم منحرف ارکان کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر علیم خان بھی دیگر ممبران کی طرح اپنی نشست کھو بیٹھے۔

حالیہ عام انتخابات سے قبل علیم خان نے جہانگیر ترین کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی اور اسی کے ٹکٹ پر انھوں نے الیکشن میں حصہ لیا۔ ن لیگ نے کئی نشستوں پر ان کی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔ علیم خان کی لاہور سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی نشستیں ان میں شامل تھیں۔ وہ دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے۔

سنہ 2002 میں پہلی مرتبہ علیم خان نے لاہور کے ٹاؤن شپ کے علاقے سے عام انتخابات میں حصہ لیا تاہم انھیں علامہ طاہرالقادری کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ بہرحال وہ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر نہ صرف صوبائی اسمبلی کے رکن بنے بلکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر بھی رہے۔

اس کے بعد علیم خان نے تقریباً ہر الیکشن میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہو پائے۔ سنہ 2008 میں وہ ق لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑے اور ہار گئے۔ اکتوبر سنہ 2011 کو عمران خان کے لاہور میں ایک جلسے کے بعد علیم خان نے عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف میں شمولیت حاصل کی۔

انھوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے سنہ 2013 کے عام انتخابات، سنہ 2015 کے ضمنی انتخابات اور پھر سنہ 2018 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر عام انتخابات میں حصہ لیا تاہم کامیابی انھیں صرف سنہ 2018 کے اتنخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر ملی۔

جام کمال خان

وفاقی کابینہ میں شامل کیے جانے والے جام کمال خان کا تعلق بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے ہے۔ لسبیلہ کو قیام پاکستان سے قبل ایک ریاست کی حیثیت حاصل تھی جو کہ ریاست قلات کا حصہ تھی۔

قیام پاکستان سے قبل جام کمال خان کا خاندان ریاست لسبیلہ کا حکمران رہا۔ جام کمال 1975میں کوئٹہ میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام یوسف کے ہاں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔

جام کمال خان موجودہ خان آف قلات میر سلیمان داؤد کے پھوپی زاد بھائی ہیں۔

انھوں نے تیسری جماعت تک تعلیم کوئٹہ شہر میں ہیلپرز ہائی سکول سے حاصل کی جس کے بعد کراچی منتقل ہوئے۔جہاں 1984میں فیلکن ہاؤس گرائمر سکول میں داخلہ لیا۔

وہاں سے او لیول اور اے لیول کرنے کے بعد کراچی میں گرین وچ یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ضلع لسبیلہ کے ضلعی ناظم کی حیثیت سے کیا۔ جام کمال کے خاندان کا تعلق مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں سے رہا لیکن جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعدان کا خاندان ق لیگ میں شامل ہو گیا۔

جام کمال 2001 سے 2005 اور اس کے بعد 2005 سے 2008 تک ق لیگ سے لسبیلہ کے ضلعی ناظم رہے۔

اپنے والد جام يوسف کے وفات کے بعد جام کمال خان جام آف لسبیلہ بن گئے۔

انھوں نے 2013 میں قومی اور بلوچستان اسمبلی کی دونوں نشستوں سے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا تاہم انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست کو برقرار رکھا۔

جام کمال خان بعد میں نواز لیگ میں شمولیت اختیار کی اور سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل رہے۔

تاہم اسٹیبلشمنٹ سے میاں نواز شریف کے اختلافات کے بعد جام کمال نواز لیگ کے ناقدین میں شامل ہوئے اور انھوں نے 2018 کے اوائل میں بلوچستان کی سطح پر بننے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام سے مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں شدید نقصان پہنچا تھا۔ نواز لیگ کی مرکزی قیادت کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور نواز لیگ کو نقصان پہنچانے کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر عائد کیا گیا تھا۔

سنہ 2018 کے عام انتخابات میں جام کمال بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد میں پارٹی کی قیادت میں بننے والی مخلوط حکومت کے وزیراعلیٰ بن گئے ۔

اپنے خاندان سے وہ بلوچستان کے تیسرے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان سے قبل ان کے والد بلوچستان کے ایک مرتبہ جبکہ دادا جام غلام قادر دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہے ۔

تاہم 2021 میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد جام کمال کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

سنہ 2023 کے اواخر میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے حامیوں کے ہمراہ نواز لیگ میں شمولیت اختیار کی۔

سنہ 2024 میں وہ نواز لیگ کی ٹکٹ پر لسبیلہ اور آواران سے قومی اسمبلی کی نشست کے علاوہ لسبیلہ سے بلوچستان کی نشست پر بھی منتخب ہوئے۔

وہ چاہتے تھے کہ نواز لیگ انھیں بلوچستان کا دوبارہ وزیر اعلیٰ بنائے لیکن نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی کے معاہدے کے بعد نواز لیگ کی ہدایت پر جام کمال خان بلوچستان اسمبلی کی نشست سے دستبردار ہو گئے۔

احد خان چیمہ

وزیراعظم شہباز شریف نے جب سنہ 2008 میں پاکستان واپس آنے کے بعد پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ کے طور پر صوبہ پنجاب میں حکومت سنبھالی تو اس وقت سے احد خان چیمہ ان کی مرکزی ٹیم کا حصہ رہے ہیں۔

شہباز شریف نے اس کے بعد دس برس تک پنجاب پر وزیراعلیٰ کے طور پر حکومت کی اور احد چیمہ ان کی بنیادی ٹیم کے ممبر کے طور پر ان کے بڑے پراجیکٹس کے نگران رہے۔

سنہ 2018 میں ن لیگ کی حکومت کے آخری دنوں میں نیب لاہور نے احد چیمہ کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کی انکوائری کی حوالے سے نیب کے سامنے پیش ہوئے۔

ان دنوں وہ پنجاب تھرمل پاور لمیٹیڈ کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ نیب نے بعد میں ایک بیان میں بتایا کہ احد چیمہ کو ایل ڈے اے کے چیئرمین کے طور پر آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے پراجیکٹ میں بے ضابطگیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کے خلاف جو الزامات تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انھوں نے ایک ایسی کمپنی کو ٹھیکہ دیا جو سرکاری ٹھیکہ حاصل کرنے کی اہل نہیں تھی اور بدلے میں انھوں نے مالی فائدہ حاصل کیا۔

آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کو عام آدمی کے لیے ایسی رہائش فراہم کرنے کی غرض سے شروع کیا گیا تھا جو زیادہ مہنگی بھی نہ ہو اور معیار میں بھی اچھی ہو۔ اسی کیس میں بعد میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اور خود شہباز شریف کو بھی شامل تفتیش کیا گیا اور وہ گرفتار بھی ہوئے۔

احد چیمہ کو گرفتار کرنے کے بعد نیب نے ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کی انکوائری بھی شروع کی۔ وہ لگ بھگ تین سال جیل میں رہنے کے بعد 2021 میں ضمانت پر رہا ہوئے۔ سنہ 2023 میں نیب نے انھیں تمام مقدمات میں کلین چٹ دے دی۔ اس کے بعد احد چیمہ کو نیب عدالت نے ان تمام الزامات سے بری کر دیا۔

اس سے قبل سنہ 2022 میں جب سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم ہونے پر شہباز شریف پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تو اسلام آباد میں میٹرو بس پراجیکٹ کی ایک تقریب میں احد چیمہ ان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے۔

اسی برس ان کو وزیراعظم کا مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ مقرر کر دیا گیا۔ احد چیمہ نا صرف شہباز حکومت میں اس عہدے پر کام کرتے رہے بلکہ ان کی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد نگران حکومت میں ایک مرتبہ پھر احد چیمہ کو اسی پوزیشن پر نگران وزیراعظم کا مشیر مقرر کر دیا گیا۔

تاہم اس پر ان کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک درخواست دائر ہوئی اور الیکشن کمیشن نے اس کو منظور کرتے ہوئے نگران حکومت سے احد چیمہ کو نگران کابینہ سے ہٹانے کا حکم دیا۔ دسمبر 2023 میں صدر نے ان کو عہدے سے ہٹانے کی سمری منظور کی۔

اب احد چیمہ ایک مرتبہ پھر شہباز حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔

قیصر احمد شیخ

پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ اُن کا پرانا تعلق ہے۔ قیصر احمد شیخ کو بزرگ سیاستدانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ وہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ کی ایک بڑی اور معروف کاروباری شخصیت کے طور پر معروف ہیں۔

قیصر احمد شیخ کو پاکستان کے چند بااثر کاروباری افراد میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز تحریک استقلال سے کیا اور پرانے ن لیگ کے ساتھی تصور کیے جاتے ہیں جو نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے قریبی ہیں۔

قیصر احمد شیخ نے سنہ 1997 میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں قدم رکھا جب وہ عام انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر چنیوٹ سے کامیاب ہو کر اسلام آباد پہنچے۔ اس سے قبل سنہ 1987 میں وہ کراچی چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری کے صدر منتخب ہوئے۔

قیصر احمد شیخ نے اس کے بعد بھی سنہ 2002 اور 2008 میں انتخابات میں حصہ لیا تاہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ سنہ 2013 میں دوسری مرتبہ ن لیگ کے ٹکٹ پر جیت کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔

اب ایک مرتبہ پھر حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ قومی اسمبلی پہنچے ہیں اور پہلی مرتبہ کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین12 گھنٹے ago

اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے فرانس میں ٹرین نیٹ ورک پر حملے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

جماعت اسلامی نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر دھرنا دے دیا، مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

تازہ ترین14 گھنٹے ago

صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

پاکستان14 گھنٹے ago

عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی جیل بھرو تحریک شروع کرے، دو گھنٹے کی بھوک ہڑتال مذاق ہے، نثار کھوڑو

تازہ ترین16 گھنٹے ago

ہمارے نام پر ڈالر لے کر وسائل کھائے گئے، بطور وزیراعلیٰ اعلان کرتا ہوں صوبے میں کہیں بھی آپریشن نہیں کرنے دوں گا، علی امین گنڈا پور

پاکستان16 گھنٹے ago

رومانیہ میں پاکستان نیوی کے آف شور پٹرول ویسل پی این ایس حنین کی کمیشننگ تقریب

تازہ ترین18 گھنٹے ago

کراچی میں رات کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، نیپرا نے کے الیکٹرک کو ہدایت جاری کردی

پاکستان18 گھنٹے ago

پنجاب میں متوفی سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو ملازمت دینے کا قانون ختم

مقبول ترین