Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

معاشی خودمختاری عالمی مفادات کے تابع کیوں رہی؟

Published

on

Pakistan

    اس عہد میں قومی آزادی اورملکی سلامتی کا تصور اقتصادی خودمختاری سے جڑا ہوہے،اس کرہ ارض پہ باوقار قوم بن کے جینے کی خاطر فقط ایٹمی ڈیٹرنٹ ہی کافی نہیں بلکہ اقتصادی ترقی کا وسیع تصور ہی قومی خود مختاری کی عکاسی کرتا ہے۔

شاید اسی تناظر میں دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں نے بظاہر جنگ کی تباہ کاریوں کی بدولت اجڑی ہوئی مملکتوں کی بحالی کے لئے عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے جو بین الاقوامی مالیاتی ادارے قائم کئے،وہ فی الاصل نوزائیدہ قومی ریاستوں کے وسائل کا استحصال اور وہاں کی حکمراں مقتدرہ کو کنٹرول کرنے کا ٹول ثابت ہوئے۔

تاہم مجموعی انسانی ارتقاکے لئے معاشی پالیسیوں کی تدوین کے علاوہ انسانی مہارتوں بڑھانے کے مواقع موجود تھے جن سے ہم استفادہ نہ کر سکے۔اسی لئے دنیا میں اب صحت مند معاشرے برپا کرنے کی خاطر امانت و دیانت جیسی اخلاقی اقدار کو بھی سرمایہ تسلیم کر لیا گیا،ہرچند کہ فی کس آمدن، بہتر معیارِ زندگی، تعلیم اور غربت کے تعین کو معاشی اونچ نیچ کا اشاریہ سمجھا گیا لیکن کسی قوم کی ترقی کے لئے اہم اور ضروری شرط بجائے خود انسان کا ذہنی ارتقاہے۔

جاپان،جرمنی،فرانس اورامریکہ کی طرح مشرق و مغرب کے جن ممالک نے اپنے معاشروں کی انسانی استعداد کار کو بڑھایا، وہیں پر دنیا کے سارے وسائل سمٹنے لگے۔چنانچہ انسانی ترقی کے اشاریہ، ایچ ڈی آئی،کو 1990 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے حصہ کے طور پر متعارف کرایا گیا،اگرچہ تین وسیع شعبوں میں معاشی ترقی کی پیمائش کا ذریعہ فی کس آمدنی، صحت اور تعلیم ہے لیکن ایچ ڈی آئی کا پیمانہ مخصوص ممالک کی عالمی پوزیشن میں ہونے والی تبدیلیوں کو جانچتا ہے۔

 ترقی کافی وسیع تصور ہے،جسے سیاسی،سماجی اوراقتصادی عوامل کے تال میل میں پرکھا جاتا ہے یعنی ترقی ماحول پہ بڑھتے ہوا انسانی تصرف ہے تاہم ہماری مملکت فی الوقت جس قسم کے گھمبیر مسائل سے دوچار ہے اس میں طویل پراکسی جنگوں کے مضمرات، بنیادی ڈھانچہ کی فرسودگی، گورننس کی کمزوریوں،مالیاتی نظم و ضبط کا فقدان،تکنیکی مہارتوں کی کمی اور تہذیبی و ثقافتی اکائیوں کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ، بیرونی قرضوں میں گھری معیشت کے وبال نے معاشی خودمختاری اور قومی آزادی کو گہنا رکھا ہے۔

خاص کر نیونوآبادیاتی نظام کے تحت آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کا وہ سنہرا جال جس میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو پھنسا کر انکے عوام کا حق حاکمیت ،انسانی سرمایہ اور قدرتی وسائل کا استحصال کرکے معاشی و سیاسی خود مختاری کو پراگندہ کر دیا گیا ۔

آج بھی بظاہر آئی ایم ایف پیکیج کا مقصد معیشت کو سہارا دینا، قرضوں کو ریگولیٹ کرنا اور سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے ساختی اصلاحات میں توازن لانا ہے لیکن عملاً آئی ایم ایف پروگرام پیچیدہ ضوابط کا ایسا پنجرا ہے جو قومی وقار،سماجی ارتقا،فیصلہ سازی کے نظام ،مادی نمو اور فکری آزادیوں کو مقید رکھتا ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں کی انہی جکڑبندیوں اور بڑی طاقتوں کے عالمی مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہم اپنے داخلی نظام کی استواری کے فرض کو فراموش کر بیٹھے جس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا ٹیکس کا تناسب جی ڈی پی کا تقریباً 10 فیصد ہے، یہ دنیا میں جی ڈی پی کا سب سے کم حصہ ہے۔ 220 ملین آبادی والے ملک کو ٹیکس کے اتنے کم تناسب کے ساتھ چلانا مشکل ہو گا۔

حیرت انگیز طور پہ ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کی ضرورت کا احساس ہر سطح پہ پائے جانے کے باوجود مالیاتی اصلاحات سے اغماض،کرپشن کو روکنے والے قوانین کی عدم موجودگی اور نوجوان نسل میں تکنیکی مہارتوں کی کمی مملکت کی ترقی،خوشحالی کی راہ میں حائل ہیں،شاید ہمارے ارباب بست و کشاد معاشی و سیاسی خودمختاری سے دستبرداری میں اپنا مفاد تلاش کرتے رہے۔

محتاط اندازے کے مطابق غیر متوقع سیاسی تبدیلیوں کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل کی خاطر بجلی اور تیل کے نرخ بڑھانے کے علاوہ پراپرٹی پہ 14 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی وجہ سے یہاں رئیل اسٹیٹ بزنس میں لوگوں کا 90 ٹریلین روپیہ پھنس گیا،جس کی وجہ سے پراپرٹی کا کاروبار بیٹھ گیا۔آئی ایم ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر بنیادی پیدواری یونٹس، بجلی،تیل اور پانی کے نرخ بڑھنے سے مجموعی پیدواری عمل سست روی کا شکار ہوا تو مزدور کی زندگی زیادہ تلخ ہو جانے کی وجہ سے ناقابل بیان سماجی،اخلاقی اور سیاسی مسائل پیدا ہونے لگے۔

پی ڈی ایم گورنمنٹ کی طرف سے محصولات کی وصولی میں کچھ اضافہ اور ٹیکس اصلاحات لانے کی کوشش جاری ہے لیکن قومی معیشت پہ ان اصلاحات کے اثرات محدود ہیں کیونکہ ہماری 5 ارب ڈالر کی حامل پرچون معیشت کا ایف بی آر کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، اس لئے سیلز ٹیکس کا بڑا حصہ غائب ہو جاتا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قومی بنکوں میں 85 ملین اکاونٹس ہولڈر ہیں لیکن ایف بی آر ریکارڈ میں محض 2 ملین فائلر ہیں۔اگر بیوروکریسی چاہتی تو یہ تفاوت کور ہو سکتا تھا لیکن اسی گیپ میں بدعنوانی کا فعال دھارا بہتا ہے،جس کی راہ روکنا کسی کے بس میں نہیں۔

ہمارے ریاستی ڈھانچہ میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کے علاوہ کسٹم ڈیپارٹمنٹ اور ایف بی آر میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت تھی لیکن گورننس کی کمزوریوں کی وجہ سے ان دو شعبوں میں پائی جانے والی خرابیوں کا تدارک ممکن نہیں ہو رہا، بلکہ مجموعی ریاستی ڈھانچہ میں اصلاحات اب تو ناممکنات سے قریب تر نظر آتی ہیں،جسے مینیج کرنے کے لئے جس قسم کے سخت اقدامات کی ضرورت ہے وہ کمزور حکومتی اتھارٹی کے بس میں نہیں رہے ۔

ذرا غور کیجئے کہ ہمارے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ سرکاری گاڑیاں موجود ہیں جن کی مرمت و بحالی پہ اٹھنے والے بھاری اخراجات کے علاوہ 9 ملین لیٹر یومیہ تیل صرف ہوتا ہے۔ 2016 میں میاں نوازشریف جیسے مضبوط وزیراعظم نے سرکاری گاڑیوں پہ اٹھنے والے غیرمعمولی اخراجات کو ریگولیٹ کرنے کےلئے سرکاری وہیکل ختم کرکے یہ رقم ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈجسٹ کرنے کی منصوبہ پیش کیا جسے بیوروکریسی نے ناکام بنا دیا۔

دنیا کی تیسری بڑی معیشت برطانوی سرکار کے پاس صرف45 گاڑیاں ہیں مگر ہماری بیورکریسی ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیوں پہ اکتفا نہیں کرتی،ہر صاحب اختیار آئے روز نت نئی گاڑیاں اپنے فلیٹ میں شامل کرنے کو بیتاب رہتا ہے۔ملکی نظام میں خرابی کا ایک محرک دوہری شہریت کے حامل وہ چالیس ہزار اعلی افسران ہیں، جن کے بچے، سرمایہ اور مستقبل یورپ سے وابستہ ہے، وہ سسٹم میں اصلاحات کے خلاف طاقتور مزاحمت کرکے اپنے”مفادات“ کے تحفظ کی خاطر بیرونی مداخلت کا ٹول بنتے ہیں۔

ہماری ریاستی اتھارٹی دوہری شہریت رکھنے والوں کو سسٹم سے نکال باہر کرنے کی استعداد کھو چکی ہے،شاید اسی وجہ سے ابھی تک کسی سویلین یا فوجی گورنمنٹ کے لئے گورننس میں بہتری، نیپرا ایکٹ میں ترامیم، محصولات کی ریکوری اور ٹیکس چوری کو کم کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔2019 میں پی ٹی آئی گورنمنٹ نے حساس اداروں کو حکم دیا کہ بڑے کاروباری طبقات اور بڑے اکاونٹ ہولڈر کو تلاش کرکے ٹیکس نظام کے اندر لایا جائے چنانچہ خیبرپختونخوا کے بنوں ڈویژن میں میرام شاہ کے راستے افغانستان کو اربوں روپے ماہانہ کا تیل فروخت کرنے والے ایک ڈیلر کا ریکارڈ ایف بی آر کو فراہم کیا گیا،جو گورنمنٹ کو پھوٹی کوڑی ٹیکس نہیں دیتا تھا لیکن بڑے پیمانے پہ احتجاج پھوٹ پڑنے کے بعد گورنمنٹ ایسے بزنس ٹائیکون کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے پیچھے ہٹ گئی۔

ذرائع کے مطابق صرف بنوں ڈویژن میں اسی سطح کے لگ بھگ دو ہزار تاجر موجود ہوں گے جو افغانستان سے کھربوں کی تجارت کرنے کے باوجود گورنمنٹ کو کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔

شمالی وزیرستان کے ایک تاجر کے 63 ٹرک (22 ویلر،ٹرالر) ایکسائز اینڈ ٹیکسشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں،جن میں ہر ایک کی قیمت ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہو گی،انہی ہیوی وہیکل میں اربوں روپے ماہوارکا کاروبار ہوتا ہے لیکن ایکسائزاینڈ ٹیکسشن ڈیپارٹمنٹ والے ایف بی آر کو بڑے ٹرکوں، بم پروف اور لگژری گاڑیوں کا ڈیٹا فراہم نہیں کرتے کیونکہ تمام بااختیار اداروں میں ڈی ایم جی گروپ کے وہ افسران براجمان ہیں جو ادارہ جاتی ڈھانچہ کو مربوط رکھنے کی بجائے سرکاری شعبوں کو الگ الگ راجدھانیوں میں منقسم رکھنے میں فائدہ ڈھونڈتے ہیں۔

صرف پشاور کی طورخم ،میرام شاہ کی غلام خان چیک پوسٹ، وانہ سے منسلک انگور اڈا اور بلوچستان کے چمن بارڈر پہ یومیہ اربوں روپے کی غیرقانونی تجارت ہوتی ہے، جسے اگر ریگولیٹ کر لیا جائے تو کروڑوں کا یومیہ ریونیو مل سکتا تھا لیکن اس غیرقانونی تجارت کے بینفشری ہمارے ریاستی نظام سے زیادہ طاقتور ہیں۔

  علیٰ ہٰذالقیاس ،جی ڈی پی فی کس زندگی کے مادی معیارات اور ترقی کا سب سے عام اشاریہ ہے۔ یہ ایک سال میں مجموعی مقامی پیداوار کی پیمائش اور اسے آبادی کے حساب سے منقسم کرنے میں پایا جاتا ہے لیکن انسانی ارتقاکی پیمائش کے اشارئیے قدرے مختلف ہیں، مثال کے طور پ، انٹرنیٹ تک رسائی کو بہت سے لوگوں کی طرف سے آزادی سمجھا جاتا ہے جس سے فرد کی سوچ کو وسعت ملنے کی وجہ سے زندگی کا معیار تو بلند ہوا مگر سائبر جرائم، بدعنوانی کے طریقوں میں پیچیدگیاں اورغربت اور محرومیوں کا احساس دوچند ہوتا گیا، تاہم جی ڈی پی کا شمار قوت خرید کے تناسب سے کیا جائے گا۔

بلاشبہ سماجی معیشت کو تقسیم کرنے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں سب سے اہم تین صنعتوں میں منقسم ہیں، زراعت جسے سماجی صنعت کی بنیاد کہا جاتاہے، جس میں زراعت، جنگلات، مویشی پالنا اور ماہی گیری کے اجزاشامل ہیں۔ یہ صنعت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔

دوسری،کارخانوں اور تعمیرات کی صنعتوں میں وسیع زمرے شامل ہیں، جیسے خوراک، کاغذ، معدنیات، دھاتیں، مشینری،الیکٹرانکس اور میک ا کا ساز و سامان وغیرہ۔یہ وہ شعبہ ہے جہاں اگر انسانی ترقی کا معیار بہتر ہوگا تو ترقی یافتہ ٹیکنالوجی صنعتی معیشت کو مضبوط بنیاد فراہم کرے گی،جیسے چین،جاپان، امریکہ، جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ صنعتی ممالک، سبھی انسانی ترقی سے بہرور ہوئے۔

تیسری صنعت، سروسز فراہم کرنے پیشے جیسے وکلااور ڈاکٹرز کی نجی پریکٹس،پروفیسرز کی پرائیویٹ اکیڈمی اور بیوٹی سیلون جہاں سالانہ اربوں کی لین دین ہوتی ہیں، وہ ہمارے ٹیکس نظام سے مبرا ہیں تاہم عام طور پر سماجی اور اقتصادی ترقی کی سطح جتنی زیادہ بلند ہوگی، تیسرے درجے کی صنعت کا تناسب اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

ملک محمد اسلم اعوان سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ کی گراؤنڈ رپورٹنگ کی، قومی سیاسی امور، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر لکھتے ہیں، افغانستان میں امریکی کی جنگ کے حوالے سے کتاب جنگ دہشتگردی، تہذیب و ثقافت اور سیاست، کے مصنف ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے فرانس میں ٹرین نیٹ ورک پر حملے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

جماعت اسلامی نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر دھرنا دے دیا، مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

تازہ ترین14 گھنٹے ago

صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

پاکستان15 گھنٹے ago

عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی جیل بھرو تحریک شروع کرے، دو گھنٹے کی بھوک ہڑتال مذاق ہے، نثار کھوڑو

تازہ ترین16 گھنٹے ago

ہمارے نام پر ڈالر لے کر وسائل کھائے گئے، بطور وزیراعلیٰ اعلان کرتا ہوں صوبے میں کہیں بھی آپریشن نہیں کرنے دوں گا، علی امین گنڈا پور

پاکستان17 گھنٹے ago

رومانیہ میں پاکستان نیوی کے آف شور پٹرول ویسل پی این ایس حنین کی کمیشننگ تقریب

تازہ ترین18 گھنٹے ago

کراچی میں رات کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، نیپرا نے کے الیکٹرک کو ہدایت جاری کردی

پاکستان18 گھنٹے ago

پنجاب میں متوفی سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو ملازمت دینے کا قانون ختم

مقبول ترین