ٹاپ سٹوریز
مرنے کے بعد شناخت ہوجائے، غزہ کے مکینوں نے نشانی کے لیے بریسلٹ پہننا شروع کر دیئے، بازوؤں پر نام لکھوا لیے
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والوں کی لاشیں ناقابل شناخت ہونے پر اجتماعی تدفین کی جا رہی ہے لیکن اب غزہ کے مکین نامعلوم فرد کی موت اور اجتماعی قبر سے بچنے کے لیے ہاتھوں میں کنگن اور دھاگے سے خاص طرح کی ڈوریاں پہن رہے ہیں تاکہ ان کے خاندان انہیں تلاش کر کے کم از کم تدفین تو کرلیں۔
اب غزہ کے لوگ جینے کی بجائے مرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں لیکن موت کے بعد شناخت کو گم نہیں کرنا چاہتے، ایسا ہی ایک خاندان 40 سالہ علی کا ہے،علی نے بتایا کہ اسرائیلی بمباری کے بعد انہوں نے لاشیں بکھری دیکھیں اور وہ ناقابل شناخت تھیں۔
علی نے کہا کہ اس نے اپنے خاندان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ ایک ہی حملے میں مرنے سے بچ سکیں۔ اس نے بتایا کہ ان کی بیوی نے اپنے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کو شمال میں غزہ شہر میں رکھا اور وہ تین دیگر بچوں کے ساتھ جنوب میں خان یونس چلی گئی۔
علی نے کہا کہ وہ بدترین حالات کی تیاری کر رہے ہیں۔ اپنے خاندان کے افراد کے لیے نیلے رنگ کے بریسلٹ خریدے اور انہیں دونوں کلائیوں کے گرد باندھ دیا۔ “اگر کچھ ہوتا ہے،” انہوں نے کہا، “اس طرح میں انہیں پہچان لوں گا۔”
دیگر فلسطینی خاندان بھی اپنے بچوں کے لیے بریسلٹ خرید رہے ہیں یا بنا رہے ہیں یا اپنے بازوؤں پر اپنے نام لکھوا رہے ہیں۔
اجتماعی تدفین
اجتماعی تدفین کی اجازت مقامی مسلم علما نے دی ہے۔ تدفین سے پہلے، طبیب مرنے والوں کی تصاویر اور خون کے نمونے رکھتے ہیں اور انہیں نمبر دیتے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ سے آبادی کو نکل جانے کو کہا لیکن جنوب کی جانب جانے والے بھی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں جبکہ جنوب کی جانب قائم پناہ گزیں کیمپ اور ہسپتال بھی بمباری اے محفوظ نہیں، اس لیے غزہ کے مکین اب کسی بھی لمحے موت کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت نے بدھ کے روز بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 344 بچوں سمیت کل 756 فلسطینی ہلاک ہوئے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر سے اسرائیلی بمباری سے کم از کم 6,546 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 2,704 بچے بھی شامل ہیں۔