ٹاپ سٹوریز

گرفتار بلوچ عسکری کمانڈر گلزار امام شمبے کون ہیں؟ گرفتاری کتنی اہم ہے؟

Published

on

پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے کالعدم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) کے سابق کمانڈر گلزار امام شمبے کو منگل کے روز میڈیا کے سامنے پیش کیا۔

اس موقع پر صرف پی ٹی وی کے کیمرا مین کو ویڈیو بنانے کی اجازت دی گئی تھی۔ پریس کانفرنس میں اگرچہ میڈیا کے نمائندوں کو سوال کرنے کی اجازت دی گئی لیکن شروع میں جو سوالات پوچھے گئے ان سے گلزار امام کو کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔

بعض صحافی گلزار امام سے یہ پوچھنا چاہتے تھے کہ ان کی گرفتاری کہاں سے عمل میں آئی لیکن ان کو اس کا موقع نہیں ملا بلکہ چند سوالات کے بعد پریس کانفرنس کو ختم کیا گیا، گلزار امام شمبے کی گرفتاری اتنی اہم کیوں ہے؟

گلزار امام شمبے کون ہیں؟

گلزار امام شمبے بلوچستان کے ضلع پنجگور سے تعلق رکھتے ہیں، گلزار امام نے 2002ء میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( بی ایس او) میں شمولیت اختیار کی۔

بلوچستان کے ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والے امام نے 2002 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کے پلیٹ فارم سے طلبہ سیاست میں شمولیت اختیار کی۔

بعد کے برسوں میں بی ایس کے کئی دھڑے مدغم ہوئے اور بی ایس او آزاد وجود میں لائی گئی، بی ایس او کا یہ دھڑا بلوچستان میں عسکریت پسندی اور شورش کی کھلم کھلا حمایت کر رہا تھا، گلزار امام 2006ء میں اس دھڑے کے پنجگور کے صدر بنائے گئے، اللہ نذر بلوچ اور بشیر زیب، دو علیحدگی پسند گروپوں بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ ہیں، وہ بھی زمانہ طالب علمی میں بی ایس او سے وابستہ رہے۔

بی ایس او کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تو گلزار امام شمبے زیرزمین چلے گئے اور براہمداغ بگٹی کی کالعدم تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی کا حصہ بن گئے، جلد ہی گلزار امام شمبے اس تنظیم کے آپریشنل کمانڈر بن گئے،2016ء سے 2018 کے درمیان حیر بیار مری کی بلوچ لبریشن آرمی، براہمداغ بگٹی کی طلوچ ری پبلکن آرمی اور مہران مری کی یونائیٹڈ بلوچ آرمی میں دراڑ نمودار ہونا شروع ہوئی۔

ان گروپوں میں دراڑ کی وجہ لوئر مڈل کلاس کے کمانڈروں کی جانب سے یورپ میں زندگی گزارنے والے سردار طبقے کے سربراہوں کے درمیان کشمکش تھی، گلزار امام شمبے نے کئی معاملات پر بلوچ ری پبلکن آرمی کے سربراہ براہمداغ بگٹی اختلاف کرنا شروع کیا۔ زیادہ اختلاف لیڈرشپ کے انداز پر تھا۔ براہمداغ بگٹی سوئٹزرلینڈ میں رہ کر تنظیم کے معاملات پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول رکھنا چاہتے تھے جبکہ گلزار امام آپریشنل امور کے ذمہ دار تھے اور براہمداغ کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے ناخوش تھے۔

اکتوبر 2018ء میں بلوچ ری پبلکن آرمی نے گلزار امام شمبے کو گروپ سے نکالنے کا اعلان کیا اور اس کی وجہ بھتہ خوری اور ماورائے عدالت قتل بتائے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بلوچ ری پبلکن آرمی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ مکران ریجن میں گلزار امام کا گروپ پر کنٹرول زیادہ تھا، براہمداغ بگٹی سے وفادار دھڑے کا زور ڈیرہ بگٹی اور نواحی اضلاع میں تھا۔

ادھر بی ایل میں اسلم اچھو اور بشیر زیب نے حیر بیار مری کے خلاف بغاوت کردی اور الگ دھڑا بنا لیا تھا۔

کالعدم بلوچ نیشنل آرمی کی تشکیل

جنوری 2022 میں گلزار امام اور ایک کالعدم گروپ بلوچ آرمی کے فیلڈ کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے اپنے گروپ ضم کرکے بلوچ نیشنل آرمی کے نام سے الگ گروپ تشکیل دیا۔ اس دھڑے نے بلوچ دھڑوں کے اتحاد بلوچ راجی اجوئی سنگار میں شمولیت اختیار کر لی۔

بلوچ نیشنل آرمی ( بی این اے) نے تشکیل نے 9 دن بعد 20 جنوری 2020ء کو انار  کلی بازار لاہور میں دھماکہ کرکے اپنے وجود کا اعلان کیا، اس دھماکے میں تین افراد مارے گئے اوردرجنوں زخمی ہوئے۔

گلزار امام اور بشیر زیب زمانہ طالب علمی میں بی ایس او میں اکٹھے رہے تھے، اس لیے دونوں میں قریبی رابطہ برقرار رہا،مکران ریجن میں دونوں مل کر کام کر رہے تھے۔ گلزار امام کا ایک بھائی ناصر امام  پچھلے سال فروری میں سکیورٹی فورسز اور بی ایل اے کے درمیان ایک جھڑپ میں بی ایل اے کے دیگر عسکریت پسندوں کا ساتھ مارا گیا تھا۔

گلزار امام شمبے کی گرفتاری بڑی کامیابی کیسے؟

سکیورٹی حکام گلزارامام کی گرفتاری کو بڑی کامیابی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ گلزار امام شمبے کی گرفتاری بی این اور دوسے عسکری گروپوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔

سکیورٹی ماہرین کہتے ہیں کہ گلزار امام شمبے کی گرفتاری کے بعد بلوچ نیشنل آرمی کو غیرمؤثر  کرنے میں مدد ملے گی۔ گلزار امام کی گرفتاری کے بعد سے اس گروپہ میں توٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے اور کئی کمانڈر یہ گروپ چھوڑ چکے ہیں۔ گلزار امام کی گرفتاری نے صرف بی این اے کا نیٹ وتک تباہ نہیں کیا بلکہ بی ایل اے کو بھی بڑا دھچکا لگا ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version