Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

صدر ایران کا دورہ اور سیاسی فکر کا تضاد

Published

on

ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ملک کے اندر اور باہر بحث جاری ہے۔ ڈاکٹر رئیسی نے دورہ پاکستان ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب ایران اسرائیل تنازعہ عروج پر ہے۔ اسرائیل نے اگرچہ ایرانی حملے کے جواب میں خود بھی ایران کے بعض علاقوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا لیکن اس کے باوجود امریکہ سمیت تمام یورپ کو ایران پر شدید غصہ ہے اور وہ ننگے چٹے ہوکر اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ پہلے سے ہی عالمی پابندیوں کے شکار ایران کو مزید پابندیوں کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ایسے میں ایرانی صدر کا پاکستانی سرزمین پر قدم رکھنا خود پاکستان جیسے ملک کے لئے ایک آزمائش سے کم نہیں تھا جس کی معیشت اور دفاع کا بال بال امریکہ اور اتحادیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

سوالات تو کئی ہیں کہ ایرانی صدر نے یہ دورہ کیوں کیا ؟ اس دورے سے پاکستان کو کیا حاصل وصول ہوا؟ اور ایران نے کیا فائدہ اٹھایا ؟ اور اس دورے کے بعد کیا پاکستان پر کوئی امریکی دباو آئیگا ؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ کیا ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے اندر مخلوط حکومت بھی سیم پیج پر ہے ؟ اول الذکر سوالات پر اب تک بہت لکھا کہا اور سنا جاچکا جبکہ میری دلچسپی اس آخری سوال میں کچھ زیادہ ہے۔
پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات کی تاریخ گرم سرد ابواب سے بھری ہوئی ہے۔ پاکستان کے اندر اس وقت مخلوط حکومت کی دو بڑی شراکت دار جماعتیں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی ہیں۔ جبکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اسٹبلشمنٹ بطور خاص نہ صرف ایک اہم ترین بلکہ فیصلہ کن فریق کے طور پر موجود ہے۔ دونوں جماعتوں کی ایران سے تعلقات کی تاریخ ایک دوسرے سے مختلف ہے جس کی ایک جھلک ایرانی صدر کے حالیہ دورے میں بھی سامنے آئی۔ جبکہ انقلاب ایران کے بعد ہماری اسٹبلشمنٹ کے ہاں ایران کے حوالے سے کیا اپروچ پائی جاتی ہے وہ بھی ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ جس کا آج جائزہ لیتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی اگر بات کریں تو ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں رضا شاہ پہلوی سے دوستانہ تعلقات سے لے کر 2013 میں ختم ہونے والی آصف زرداری کی قیادت میں پارٹی کی آخری حکومت میں بھی ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں جاری رہیں۔ 2013 میں آصف زرداری کی طرف سے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر دستخط اور پھر اس کا افتتاح خطے میں ایک نئے سٹریٹجک الائنس کی طرف ایک پیش قدمی تھی۔ اگرچہ آصف زرداری نے یہ معاہدہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں کیا تاہم وہ اس سے اپنے بعد آنے والی حکومتوں کو نہ صرف امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات میں بہتر ڈپلومیسی کے لئے ایک بارگیننگ چپ دے گئے، بلکہ سستی توانائی کے حصول کی ایک نئی راہ بھی دکھا گئے۔ تاہم اس کے بعد 2013 میں مسلم لیگ نون کی حکومت امریکی دباو کے باعث اس منصوبے پر کام کو آگے نہ بڑھا سکی۔ بلکہ اس دور میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے ایشو پر ایران سے تعلقات ناخوشگوار بھی ہوگئے۔ یہاں تک کہ اس واقعہ نے ایرانی صدر خاتمی کا دورہ پاکستان بھی بے رنگ کردیا۔
اس کے بعد 2018 کے بعد تحریک انصاف کے دور میں بھی نہ صرف پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی بلکہ سابق وزیراعظم کے غیرمعمولی جھکاؤ کے باوجود ایران سے تعلقات میں کوئی بریک تھرو نہ ہوسکا۔ ہماری اسٹبلشمنٹ بھی اس تمام عرصے میں واضح طور پر امریکی دباؤ میں نظر آئی۔ کلبھوشن کا معاملہ ہو یا سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے ایران بارے غیرمعمولی جوش و خروش کا اظہار، طاقت کے مراکز نے ان دونوں مراحل پر خود کو ایران سے ایک فاصلے پر رکھا۔
ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کا جائزہ لیں اس دوران پاکستان میں برسراقتدار دونوں بڑی جماعتوں کی باڈی لینگویج میں واضح فرق دیکھنے میں آیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس بار ایران کے صدر جب پاکستان کے دورے پر آئے ہیں تو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے خالق آصف زرداری ایک بار پھر عہدہ صدارت پر موجود ہیں۔ آصف زرداری نے ایرانی صدر کا بھرپور استقبال کیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت گیس پائپ لائن پراجیکٹ کے حوالے سے آج بھی پراعتماد ہے کہ یہ منصوبہ کوئی نہ کوئی شکل ضرور اختیار کرلے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بہتر وقت کے انتظار میں فریقین نے مصلحتا اس دورے میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر آن ریکارڈ بات نہیں کی۔
پیپلزپارٹی کی قیادت نے ایرانی صدر کو بھرپور پروٹوکول دیا۔ ایوان صدر میں آصف زرداری نے ایرانی ہم منصب کو ویلکم کہا تو دورہ کراچی میں پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اپنی صوبائی حکومت کے ایرانی مہمان کی خاطر تواضح کرتے ہوئے نظر آئے۔ ایرانی صدر کے اعزاز میں ایک بڑے استقبالیہ میں سینکڑوں افراد کی شرکت بھی دیکھی گئی جبکہ کراچی میں ہی ایرانی صدر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔
جبکہ دوسری طرف ایرانی صدر کے پاکستان پہنچتے ہی مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف پاکستان سے چین کے لئے روانہ ہوگئے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں اگرچہ ایرانی صدر کا قیام مختصر رھا لیکن اس میں ان کا شکوہ سب سے نمایاں ہوکر سامنے آیا کہ انہیں ان کی خواہش کے مطابق عوامی اجتماع سے خطاب کا موقع نہیں مل سکا۔ جبکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور میں ایرانی قونصلیٹ نےتو ایرانی صدر کے لئے متعدد پروگرام ترتیب دے رکھے تھے جن میں ایرانی صدر کی صحافیوں سے ملاقات اوردو ایک ثقافتی تقریبات کا انعقاد کی خواہش بھی سکیورٹی خدشات کی نظر ہوگئیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایرانی صدر کے ساتھ آئے تجارتی وفد کے ارکان بھی بوجوہ لاہور نہیں آئے جس کی وجہ سے لاہور میں بزنس کے حوالے سے کوئی دوطرفہ سیشن نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ لاہور کے استقبالی پروگرامز اتنے معیاری نہ رہے جس پر وزیراعلی مریم نواز اپنے چیف سیکرٹری سے نالاں نظر آئیں۔
اب اگر تیسرے فریق اسٹبشلمنٹ کی بات کریں تو وہاں انقلاب ایران کے بعد وہی اپروچ زیادہ نمایاں پائی جاتی ہے جس کا اظہار امریکہ اور اتحادیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان خطے میں امریکی بلاک کا حصہ ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کو ہماری اسٹبلشمنٹ بہت اہمیت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ بے پناہ مذہبی، اقتصادی اور ثقافتی مشترکات کے باوجود ہم باہمی تعاون کو اس نہج پر نہیں لے جاسکے جس کی گنجائش موجود ہے۔ اور بلاشبہ پاکستان کے اندر سیاسی جماعتیں بھی خارجہ پالیسی کے اس حساس پہلو کو نظرانداز نہیں کرتیں اور وہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے لے کر چلتی ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہو یا رواں سال جنوری میں ایران کی طرف سے پاکستانی سرزمین پر میزائل حملوں کا معاملہ، پاکستان نے اس حوالے سے انتہائی سخت موقف اختیار کیا ہے۔ کلبھوشن کے معاملہ پر تو ایرانی صدر کے دورے پر بھی کوئی رعایت نہ دی گئی اور ایران سے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا انہیں شدت سے احساس کروایا گیا۔
رواں سال جنوری میں جب پاکستان میں نگران برسراقتدار تھے تو ایران کی طرف سے پاکستانی سرزمین پر میزائل اور ڈرون حملے نے صورتحال کو غیرمعمولی کشیدہ کردیا۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا پارہ ہائی ہوگیا۔ اور ایران کو انتہائی سخت پیغام دیا گیا۔ جواباً ایرانی وزیرخارجہ پاکستان کے ہنگامی دورے پر آئے۔ معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان مکمل طور پر مطمن نہ ہوا۔ ایرانی صدر کے حالیہ دورہ کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیدا ہونے والی دراڑ کو پر کرنے کی کوششوں کے طور پر بھی لیا جارہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی اور لاہور میں ہونے والی استقبالیہ تقریبات محض دو صوبائی حکومتوں کے پروگرام نہیں تھے بلکہ دو الگ الگ سیاسی جماعتوں کے الگ الگ اظہارئیے تھے۔ جن سے دونوں جماعتوں کے ایران سے تعلقات کے حوالے سے ترجیحات جھلکتی ہیں۔ جبکہ آئندہ دنوں میں ہونے والے اقدامات سے تیسرے اہم ترین فریق اسٹبلشمنٹ کے بارے میں بھی معلوم ہوگا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔
پاکستان کی ایران سے متعلق خارجہ پالیسی بھی اسی قسم کے الگ الگ رنگ لئے ہوئے ہے۔ فارن آفس میں جہاں ایک طرف گیس پائپ لائن منصوبے کی گرمجوش فائلیں موجود ہیں تو وہیں جنوری میں ہونے والے میزائل حملے کے جواب میں چند دنوں بعد ہی جوابی ائرسٹرائیک کے شدید ردعمل والا غم و غصہ بھی اس کی ڈپلومیسی کا حصہ ہے۔ گویا پاک ایران تعلقات بھی پاک ایران گیس پائپ لائن کی طرح ایک تعطل کی کیفیت میں ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ایرانی صدر کا حالیہ دورہ اس میں کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اور پاکستان میں اقتدار کی ٹرائیکا اس معاملے کو کیا رخ دیتی ہے۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین